آرمی چیف کا بیان دباﺅ کا نتیجہ ہے: دفاعی، قانونی ماہرین
اسلام آباد (جاوید صدیق) چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جی ایچ کیو میں فوجی افسروں سے خطاب کے دوران جو کچھ کہا اس بارے میں کئی دنوں سے یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ جنرل کیانی پر داخلی طور پر ایک دبا¶ ہے کہ وہ فوجی افسروں کی پے در پے احتسابی اداروں میں پیشیوں اور ان کو سنائی جانے والی سزا¶ں ‘ریمارکس اور تبصروں پر ردعمل کا اظہار کریں۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ‘ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کو 1990ءمیں رقوم کی تقسیم کے جرم میں سزا سنائے جانے اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی‘ لیفٹیننٹ جنرل سعید اظہر اور این ایل سی سکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث جرنیلوں کی بحالی اور ان کے خلاف کارروائی سے متعلق فوج کے اندر ایک اضطراب پایا جاتا تھا۔ اس اضطراب کے خاتمے کے لئے آرمی چیف کو بیان دینا پڑا۔ نوائے وقت نے جب آرمی چیف کے اہم بیان پر ممتاز عسکری تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا اس بیان کا پس منظر یہ ہے فوج پر بلوچستان کے حوالے سے کڑی تنقید اور کئی سینئر فوجی افسران کے احتساب سے آرمی چیف پریشان تھے۔ لیفٹیننٹ طلعت مسعود سے پوچھا گیا کیا فوج موجودہ حالات کے دبا¶ کے تحت ٹیک اوور تو نہیں کرے گی تو انہوں نے کہا ٹیک اوور کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ فوجی قیادت صورتحال کا پورا ادراک رکھتی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خطاب کے فوراً بعد چیف جسٹس نے نیشنل سکول آف پبلک پالیسی نیشنل مینجمنٹ کالج لاہور کے نیشنل منیجمنٹ کورس کے زیراہتمام افسروں سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا اسے آرمی چیف کے خطاب کا جواب سمجھا گیا حالانکہ دونوں چیفس کے خطاب کا سیاق و سباق الگ ہے لیکن چیف جسٹس کے خطاب کو الیکٹرانک میڈیا میں اس زاویہ سے اچھالا گیا کہ یہ آرمی چیف کے خطاب کا جواب ہے حالانکہ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں سول سرونٹس پر زوردیا تھا وہ آئین اور قانون کے مطابق اپنے فرائض غیر جانبداری سے انجام دیں ۔آئین اور قانون کے ماہرین کے مطابق آرمی چیف اور چیف جسٹس دونوں کے خطاب میں آئین اور قانون کی بالادستی اور اتفاق رائے سے قومی مفادات کے تعین کی سوچ مشترک ہے جو قوم کے لئے ایک خوشخبری ہے۔
اسلام آباد (آئی اےن پی) ممتاز دفاعی و قانونی ماہرےن اور سیاسی تجزےہ کاروں نے آرمی چےف کے بےان کو موجودہ حالات کے تناظر مےں انتہائی اہم قرار دےتے ہوئے کہا ہے آرمی چےف کا بےان سابق جرنےلوں پر مختلف وجوہات کی بنا پر فوج پر آنے والے دباﺅ کا نتےجہ ہے، آرمی چےف نے اپنے بےان مےں 2 بہت اہم سوالات اٹھائے ،انکا اشارہ فوج سمےت تمام اداروں کی طرف ہے، فردواحد کی غلطی کو پورے ادارے کی غلطی نہےںکہا جا سکتا۔ ماہر قانون بابر ستار نے کہا اصغر خان کےس کے حوالے سے فوج کے سابق لوگوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہےں۔ آرمی چےف نے قانون کی حکمرانی کی بہت اچھی بات کی۔ دفاعی تجزےہ کار ائےروائس مارشل (ر)شہزاد چودھری نے کہا آرمی چےف کے بےان مےں کوئی منفی بات نہےں۔ انھوںنے واضح کےا قانون کے دائرے مےں رہ کر کام کرےں گے اور کسی کے معاملات مےں دخل اندازی نہےں کرےں گے تو اچھے طرےقے سے معاملات کو چلا سکتے ہےں۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات شفقت محمود نے کہا ہے کچھ دنوں سے فوج پر بہت دباﺅ نظر آ رہا تھا جس کا آرمی چیف کے بیان کی صورت میں ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا بیان پر پارٹی میں بحث کے بعد تفصیلی ردعمل ظاہر کریں گے۔