الماس بوبی بمقابلہ جنرل (ر) سعید الظفر
مجھے تو معلوم نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل سعیدالظفر نے کس ترنگ میں کہہ دیا کہ الماس بوبی کو ووٹ دو۔ شکر ہے انہوں نے یہ نہیں کہہ دیا کہ الماس بوبی کو نوٹ دو۔ الماس بوبی ایک دلیر اور دانشور خواجہ سرا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔ وہ اپنی کمیونٹی کا لیڈر ہے یا ان کی لیڈر ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اب حاضر سروس جرنیلوں کے لئے بھی الماس بوبی کا ذکر ہوتا ہے۔ آپ الماس بوبی کو الماس بی بی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے لئے میں جیالوں سے معذرت کرتا ہوں۔ جیالے بے نظیر بھٹو سے محبت کرتے ہیں۔ اس طرح تو میں بھی جیالا ہوں۔ صدر زرداری بھی بینظیر بھٹو کو بی بی کہتے ہیں۔ یہاں بی بی کا مطلب لیڈر ہے۔ بیوی کے مرنے کے بعد کوئی رشتہ اس کے شوہر کے ساتھ نہیں رہتا۔ صدر زرداری نے ازدواجی رشتے کو کمال فنکاری سے سیاسی بلکہ صدارتی رشتے میں خفیہ طریقے سے تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ معذرت تو مجھے الماس بوبی سے بھی کرنا ہے کہ وہ اپنے لئے الماس بی بی پسند کرتی یا کرتا بھی ہے کہ نہیں۔ الماس کا جوابی بیان بہت مزیدار بامعنی اور معنی خیز ہے۔ جنرل سعیدالظفر میرے تجویز کنندہ بنیں۔ میں اپنی انتخابی مہم ان کے گھر سے شروع کروں گی۔ ان کے گھر والے اور گھر والیاں میرے ساتھ شریک ہوں گی۔
ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی نے ایک صحافی کے سوال پر شٹ اپ کہا اور پھر اس پر جی نہیں بھرا تو ایڈیٹ بھی کہہ دیا۔ شکر ہے کہ جنرل صاحب نے ”مور اوور“ کہہ کر پنجابی میں ماں بہن کی گالیاں دینا شروع نہیں کر دیں۔ ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی جنرل مشرف کے وزیر شذیر تھے۔ انہوں نے ریلوے کے وزیر کی حیثیت سے کرپشن لوٹ مار اور ریلوے کی تباہی میں جرنیلی رول ادا کیا ہے۔ بے چارہ غلام احمد بلور تو ان کے مقابلے میں صرف بدنام ہے۔ ناکام دونوں نہیں ہیں۔ بلور صاحب نے ریلوے کی مٹی پلید کر دی ہے۔ ان کا قصور یہ بھی ہے کہ وہ سیاستدان یعنی سویلین ہیں۔ بلڈی سویلین؟
جنرل قاضی کیلئے بہادر کارکن لیڈر محمد صدیق الفاروق کی معرفت تعارف ہوا۔ انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کے جنرل صاحب کی ساری جرنیلی خاک میں ملا دی۔ جیل کاٹی جبر و استبداد اور ظلم و ستم کا مقابلہ کیا۔ ہمیشہ ظالم ہار جاتے ہیں اور مظلوم جیت جاتے ہیں۔ چنانچہ صدیق الفاروق جیت گئے۔ لیکن اب اس زمانے کا ذکر ہو تو صدیق الفاروق کو چپ لگ جاتی ہے۔ صدیق الفاروق کے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا۔ جنرل جاوید اشرف قاضی کو کچھ بھی نہ ہوا۔ اب بھی انہیں کچھ نہیں ہو گا۔ جنرل سعید الظفر کو بھی کچھ نہیں ہو گا مگر اب ان کا مقابلہ الماس بوبی سے ہے۔ اب صدیق الفاروق نوازشریف کی ہر جائز ناجائز بات کا دفاع کرتے ہیں۔ نوازشریف اقتدار میں آ گئے تو بھی صدیق الفاروق کو کبھی وزیر شذیر نہیں بنائیں گے۔ اس آمرانہ ظالمانہ جمہوریت میں کوئی صادق اور امین بھی غلطی سے وزیر بن جائے تو وہ بھی وزیر شذیر ہی ہو گا۔ رحمان ملک اور بلور صاحب وزیر شذیر ہیں۔
مجھے اس صحافی پر بھی غصہ ہے۔ اس نے جناب مجید نظامی کی کوئی تقریر ہی سنی ہوتی تو برمحل اور برملا جواب دینے میں اسے کوئی خوف نہ ہوتا۔ یو شٹ اپ۔ یو ٹو ایڈیٹ۔ لیکن اس کے بعد فاروق عادل کی فریاد کے باوجود کسی صحافتی تنظیم نے کچھ نہیں کیا۔ یہ جملہ کسی سیاستدان سے سرزد ہوا ہوتا تو اب تک میڈیا میں قیامت آ گئی ہوتی۔ سیاستدان جرنیلوں سے ڈرتے ہیں تو میڈیا بھی ڈرتا ہے۔ سیاستدان حکمران بن کے جرنیل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرنیل حکمران بن کے سیاستدان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں ناکام ہوتے ہیں۔
مجھے اپنی حیرانی کا ذکر کرنا ہے کہ جنرل مرزا اسلم بیگ بھی غصے میں آ کے ایک صحافی پر باقاعدہ حملہ آور ہوئے۔ یہ جرنیلوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان کا حاکمانہ رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ جرنیل ریٹائر بھی ہو جائے تو جرنیلی اس کے اندر سے جاتی نہیں۔ یہ موقعہ کبھی کبھی آتا ہے کہ فوجیوں کو سویلین یاد آتے ہیں۔ ایک بریگیڈئر کنوئیں میں جا گرا۔ فوجی اکٹھے ہو گئے۔ مگر کمانڈ ایک کرنل صاحب کے پاس رہی۔ رسی کنوئیں میں پھینکی گئی۔ جب بریگیڈئر کنوئیں کے کنارے پر پہنچتا تو سارے فوجی اور کرنل اسے سلیوٹ مارتے اور رسی ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتی اور بریگیڈئر صاحب پھر کنوئیں کے اندر۔ اتنے میں جنرل جاوید اشرف قاضی جیسے ایک جرنیل کو بلایا گیا۔ اب بریگیڈئر صاحب کنوئیں کے کنارے پر آئے تو جنرل کو دیکھ کے خود سلیوٹ مارا۔ رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور وہ پھر نیچے۔ صحافی بھی جمع ہو گئے تھے۔ ایک صحافی نے زور سے کہا۔ کسی سویلین کو بلا¶۔ اس پر جنرل غصے میں بولا۔ شٹ اپ۔ ایڈیٹ۔ اتنے میں ایک خواجہ سرا پہنچا اور اس نے بریگیڈئر صاحب کو باہر نکالا۔
جنرل سعید الظفر صاحب نے الماس بوبی کا نام کچھ سوچ کر لیا ہے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ مذاق خواجہ سرا¶ں کے ساتھ کیا ہے یا ان جیسے سیاستدانوں سے کیا ہے۔
الماس بوبی نے خواجہ سرا¶ں کیلئے شی میل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ بہرحال فی میل سے بہتر ہے اور میل کیلئے ایک چیلنج ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک چیز ای میل بھی ہے اور یہ ہر کسی کو مل سکتی ہے۔ کوئی میل ہو یا فی میل ہو یا شی میل ہو۔ الماس بوبی کہتی ہے کہ شی میل کسی کے گھر میں بھی جنم لے سکتی ہے/ لے سکتا ہے۔ اس نے جو بات کی ہے وہ ایسا سچ ہے جس سے سیاستدان افسران اور جرنیل صاحبان ماورا نہیں۔ اس نے کہا کہ تمام حکومتیں لوٹتی ہیں۔ حکومت جرنیل کی ہو یا سیاستدان کی ہو۔ سیاستدان حکمران بن کر بھی جرنیلوں کے تابع رہتے ہیں۔ کسی سیاستدان نے جرنیلوں کی صحافیوں کے ساتھ زیادتی کے خلاف بیان نہیں دیا۔ صدر زرداری رحمان ملک نوازشریف عمران خان مولانا فضل الرحمن الطاف حسین اسفندیار ولی منور حسن اور کسی سیاستدان نے کوئی بات نہیں کی۔
شیخ رشید صحافیوں کا ہمدرد بنتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر اور کسی این جی او والی بھی بات نہیں کی۔ اس کے خلاف کسی نے بات کی ہے تو وہ بہادر الماس بوبی نے کی ہے۔ اس نے کھل کر کہا ہے کہ حکومتیں لوٹ مار کرتی ہیں۔ یہ جرنیل جن کے خلاف نیب کے مقدمات ہیں۔ بظاہر حکمران نہ تھے مگر لوٹ مار کرنے کیلئے حکمرانی نہ ہو تو جرنیلی کافی ہے۔ الماس بوبی نے سیاستدانوں کیلئے کہا ہے کہ ہمارے پاس جعلی ڈگریاں نہیں۔ سوئس اکا¶نٹ بیرون ملک بنک اکا¶نٹ اثاثے اور کاروبار نہیں۔ پاکستان میں عورت بھی حکمران رہی اور مرد بھی۔ تمام نے حکمران بن کے اپنی تجوریاں بھریں اور چلے گئے۔ پھر آ گئے۔ اب ہم اقتدار میں آ کے ملک کی تقدیر بدل دیں گے اور ساری محرومیاں دور کر دیں گے۔ عمران کو چاہئے کہ وہ الماس بوبی کو تحریک انصاف کا سینئر وائس چیئرمین بنائے۔ رائل پام سکینڈل میں ملوث جنرل سعید الظفر کیلئے پوری قوم کو شکرگزار ہونا چاہئے۔ وہ ہمیں جانتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی ٹیم ہے جو کسی جماعت کے پاس نہیں۔ لگتا ہے کہ جنرل صاحب ہم میں سے نہیں۔ ہم انہیں بھی اپنی ٹیم کا حصہ بنانے کیلئے تیار ہیں۔ وہ لوٹی ہوئی کرپشن کی ساری رقم قومی خزانے میں جمع کرائیں اور ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں۔ میرے چیف پولنگ ایجنٹ وہی ہوں گے۔