صدر سے سیاسی سرگرمیاں چھوڑنے کی توقع عدالتی ڈیکلریشن تھا‘ عمل ہونا چاہئے تھا: ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس ناصر سعید شیخ، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس شیخ نجم الحسن پر مشتمل پانچ رکنی فُل بنچ کے روبرو عدالتی احکامات کے باوجود ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں ختم نہ کرنے پر صدر زرداری کے خلاف توہین عدالت کی درخواستوں پر وفاق کے وکیل وسیم سجاد کو آئندہ سماعت پر صدر کے استثنیٰ سے متعلق دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے عدالت نے سماعت 21 نومبر تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے اس موقع پر قرار دیا کہ عدالت نے صدر سے سیاسی سرگرمیاں چھوڑنے کی جو توقع کی تھی وہ عدالتی ڈیکلریشن ہی تھا عدالتی ڈیکلریشن پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا کیونکہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ سماعت شروع ہونے سے قبل محمد اظہر صدےق اور اے کے ڈوگر ایڈووکیٹس نے اعتراض اٹھا ےا کہ 10 اکتوبر 2012ءکے حکم کے مطابق وفاق کے وکےل نے عدالت کو آگاہ کرنا تھا کہ صدر عدالتی فےصلے پر عملدرآمد کرتے ہےں کہ نہےں وسےم سجاد پہلے عدالت کو بتائےں کہ عدالتی فےصلے پر عملدرآمد ہو گا کہ نہےں اےوان صدر مےں سےاسی سرگرمےاں جاری ہےں ہم نے اےک متفرق درخواست کے ذرےعے اصغر خان کےس اور سےاسی سرگرمےا ں جاری رکھنے کے بارے مےں ثبوت دئےے ہےں۔ آصف علی زرداری نے بحثےت شریک چیئرمین پےپلز پارٹی اےوان صدر مےں بےٹھ کر منظور وٹو کو صدر پےپلز پارٹی پنجاب اور تنوےر اشرف کائرہ کو سےکرٹری پےپلز پارٹی لگاےا۔ عدالت نے تمام دستاوےزی ثبوتوں کو رےکارڈ کا حصہ بنانے کی اجازت دے دی۔ وسےم سجاد نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتاےا کہ صدر وفاق کی علامت ہے اور آئےن کے آرٹےکل 47 کے تحت صدر کو صرف ”منفعت بخش عہدہ“ رکھنے سے منع کےا گےا ہے۔ اصغر خان کےس مےں اےسا کچھ نہےں کہا گےا جس سے صدر سےاسی سرگرمےاں جاری نہ رکھ سکے۔ لاہور ہائی کورٹ نے لفظ ”توقع“ کا استعمال کےا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے کوئی واضح ہداےات جاری نہےں کےں۔ عدالت کوئی ہداےت جاری کرتی تو صدر اےوان صدر مےں سرگرمےاں بند کرتے۔ چےف جسٹس عمر عطا بندےال نے استفسار کےا کہ لفظ ”توقع“کے بارے مےں 10 اکتوبر کے فےصلے مےں عدالت واضح طور پر کہہ چکی ہے کہ ےہ صدر کی عزت اور احترام کی وجہ سے لکھا گےا تھا آپ بحث کر کے ثابت کر رہے ہےں کہ صدر اور عام آدمی کو اےک ہی نظر سے دےکھا جائے؟ وسےم سجاد نے مزےد کہا کہ آئےن کے آرٹےکل 204 اور توہےن عدالت آرڈےننس کے سےکشن 3 کے مطابق اس نوعیت کی توہین سے متاثرہ شخص کو آگے آنا ہو گا۔ اس میں تو عدالت نے کوئی حکم پاس ہی نہےں کےا۔ مسٹر جسٹس سےد منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلریشن اور آرڈر مےں کوئی فرق نہےں آپ ےہ کہنا چاہتے ہےں کہ عدالتی حکم کی کوئی اہمےت نہےں آئےن کے آرٹےکل 204 اور عدالتی توہین کو سامنے رکھتے ہوئے عدالت توہےن عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے۔ چےف جسٹس عمر عطا بندےال نے وسےم سجاد سے استفسار کےا کہ کےا آپ طرےقہ بتائےں گے کہ جس کے ذرےعے صدر عدالتی حکم پر عملدرآمد کرےں اگر وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کر سکتے ہےں تو توہےن عدالت کی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ وفاق کے وکےل نے مزےد بحث کرتے ہوئے بتاےا کہ ہائی کورٹ کا دائرہ اختےار پنجاب سے باہر نہےں ہے جبکہ اےوان صدر اسلام آباد مےں ہے۔ چےف جسٹس عمر عطا بندےال نے استفسار کےا کہ آپ کہنا چاہتے ہےں کہ صدر صرف اسلام آباد کے ہےں صدر تو پاکستان کے ہےں آپ صدر کی حےثےت کو گرا رہے ہےں ہم آپ کے اس نقطے کو نہےں مانتے اور نہ ہی لکھےں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دےا کہ صدر پاکستان پورے ملک کے صدر ہےں کےا وہ پنجاب مےں آئےں گے تو صدر نہےں رہےں گے، عدالت جو آئےن اور قانون کے خلاف ہو کسی بھی اقدام پر حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس ناصر سعےد شےخ نے کہا کہ عدالت کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے کوئی حکم ماننے سے انکار نہےں کر سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکےل سے استفسار کےا کہ آپ اصل نقطے کی طرف آئےں کےا آئےن کے آرٹےکل 248(2) کے تحت صدر کے خلاف توہےن عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے ےا نہےں۔ این این آئی کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ عدالت صدر کو اور کتنی عزت دے ان کے عہدے کو مدنظر رکھ کر احکامات دئیے صدر کو توقعات پوری کرنی چاہئیں۔