امریکی پارلیمنٹ بدستور منقسم‘ سینٹ میں ڈیموکریٹس‘ ایوان نمائندگان میں ری پبلیکنز کی حکمرانی
واشنگٹن (اے ایف پی/ ایجنسیاں) 2012ءکے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج آنے پر ڈیمو کریٹس کی بدستور سینٹ اور ری پبلیکنز کی ایوان نمائندگان پر حاکمیت برقرار ہے اس صورتحال میں جبکہ پارلیمنٹ مسلسل منقسم ہے۔ مبصرین کی رائے میں کامیابی کے باوجود صدر اوباما کیلئے نئی قانون سازی آسان کام نہیں ہو گا۔ ری پبلیکنز نے سینٹ میں اپنی برتری کی مسلسل کوششیں کیں مگر اس میں انہیں خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی جبکہ ڈیموکریٹس سینٹ میں مزید 3نشستوں کے اضافے میں کامیاب رہے۔ میسا چوسٹس میں ایک بڑی تبدیلی آئی جہاں ڈیموکریٹ امیدوار الزبتھ وارن نے ری پبلیکن امیدوار سکاٹ براﺅن کو ہرایا۔ یہاں ڈیموکریٹس نے ایڈورڈ کینڈی کی نشست دوبارہ حاصل کرلی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اوباما کیلئے نئی قانون سازی آسان نہ ہوگی اور پارلیمانی ایوانوں میں انہیں مشکلات کا سامنا رہے گا کیونکہ انہیں اب بھی وہ اکثریت حاصل نہیں کہ وہ آسانی سے قانون سازی کر سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس انتخابی مہم کے دوران دو ارب ڈالر ایسے منفی اشتہارات پر صرف کیے گئے ہیں جس سے پیدا ہونے والی تلخی کے اثرات زائل ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔ ان انتخابات میں ایوان نمائندگان کی چار سو پینتیس اور کانگریس کی تینتیس نشستوں پر مقابلہ ہوا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینٹ میں قائد حزب اقتدار ہینری ریڈ اور ایوان نمائندگان میں اکثریتی جماعت ریپبلکن پارٹی کے سپیکر جان بوہئنر اپنے اپنے عہدوں پر برقرار رہیں گے۔ ریپبلکن کو اس مرتبہ امید تھی کہ وہ سینٹ میں بھی اکثریت حاصل کر لیں گے کیونکہ ڈیموکریٹ پارٹی کو تیئس نشستوں کا دفاع کرنا تھا اور ان کے کئی سینئر ارکان ریٹائر ہو رہے تھے۔ لیکن انڈیانا اور مسوری کی ریاستوں میں ریپبلکن کے امیدواروں کی طرف سے اسقاط حمل، زنا اور زچگی کے بارے میں بیانات سے ان کو بہت نقصان پہنچا۔ انتخابات میں سینٹ کا پہلا نتیجہ ورمونٹ کی ریاست سے سامنے آیا وہاں توقعات کے عین مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دینے والے آزاد امیدوار برنی سینڈرز کامیاب قرار پائے۔ سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے کی ریپبلکن پارٹی کی امیدوں پر اس وقت مزید اوس پڑ گئی جب مین کی ریاست میں آزاد امیدوار جن کے بارے میں توقع ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا ساتھ دیں گے رپبلکن پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں کامیاب قرار پائے۔