پنجاب اسمبلی : اصغر خان کیس پر بحث شروع ہوتے ہی پھر ہنگامہ ارکان کے ایک دوسرے کیخلاف نعرے
لاہور (خبر نگار/ کلچرل رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں اصغر خان کیس پر دو گھنٹے بحث کی اجازت ملنے کے بعد بحث شروع ہونے کے چند منٹ بعد ہی ایوان مچھلی منڈی بن گیا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی ایک دوسرے کی قیادت پر الزام تراشیاں کرتے رہے اور ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ ق لیگ کی خواتین ممبران نے پی پی پی کے ارکان اسمبلی کا بھرپور ساتھ دیا۔ پیپلزپارٹی کے رکن شوکت بسرا کی طرف سے نواز شریف پر پیسے وصول کرنے کے الزام کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکان بپھر اٹھے اور انہوں نے شوکت بسرا کی تقریر رکوا دی۔ شوکت بسرا کا مائیک بند کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے گو زرداری گو، ڈاکو، ڈاکو کے نعرے لگائے۔ پیپلزپارٹی کی خواتین ارکان نے اپنے ہینڈ بیگز میں چھپائے پلے کارڈ کھول کر اٹھا لئے جبکہ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ارکان اسمبلی چور مچائے شور، پیسے واپس دو، کے نعرے لگاتے رہے۔ اس دوران سپیکر کی ”آرڈر ان دی ہاﺅس“ کی استدعائیں ارکان اسمبلی نے نہیں سنیں۔ ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ شور بڑھنے اور پیپلز پارٹی کی خاتون ارکان کی طرف سے پلے کارڈ کھولنے اور نعرے لگانے پر سپیکر نے اجلاس نصف گھنٹے ملتوی کر دیا۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیر قانون رانا ثناءاللہ ایوان میں موجود نہیں تھے۔ سپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری طاہر خلیل سندھو سے کہا کہ وہ اصغر خان کیس پر بحث کے لئے قواعد و ضوابط معطل کرنے کی درخواست کریں۔ ایوان نے یہ درخواست متفقہ طور پر قبول کر لی تو طاہر خلیل سندھو نے اعتراض کیا کہ راجہ ریاض نے اس ایشو پر پہلے بات کرنی ہے مگر سپیکر نے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت بسرا کو بولنے کی اجازت دے دی۔ شوکت بسرا نے تقریر شروع کی اور کہا کہ 85ءسے پہلے سیاست میں پیسوں کا عمل دخل نہیں تھا مگر اس کے بعد سیاست میں جس طرح پیسہ شامل کیا گیا وہ اصغر خان کیس کے ذریعے عوام کے سامنے آگیا ہے۔ ان لوگوں کے مکروہ چہرے عوام کے سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے سیاست کو کاروبار بنا دیا۔ سیاست کو پیسوں کی سیاست بنانے والوں کو الفلاح چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے۔ اس موقع پر مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی رانا ارشد، چودھری عبدالغفور، عبدالرزاق ڈھلوں، علی اصغر منڈا، طاہر خلیل سندھو اور دیگر کھڑے ہو گئے اور احتجاج شروع کر دیا۔ جس پر شوکت بسرا نے کہا کہ یہ چور مچائے شور ہے اگر یہ سچے ہیں تو شہباز شریف ایوان میں آ کر بتائیں کہ قوم کے پیسے کہاں ہیں۔ جس پر سپیکر رانا محمد اقبال خان نے شوکت بسرا سے کہا کہ وہ کسی کا بھی نام مت لیں کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا جو حصہ آپ نے پڑھ کر سنایا ہے اس میں کسی کا نام نہیں ہے۔ اس موقع پر شوکت بسرا کا مائیک بند کر دیا گیا اور وہ یہی مطالبہ کرتے رہے کہ ان کا مائیک کھولا جائے۔ پیپلز پارٹی اور ق نے لیگ کے ارکان نے لوہا چور اور چور مچائے شور کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جبکہ مسلم لیگ (ن) والے ڈاکو، ڈاکو کے نعرے لگاتے رہے۔ چودھری عبدالغفور نے کہا کہ اسلام آباد میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ رانا ارشد نے کہا کہ ایوب آمریت کی پیداوار اور پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دینے والے اب کیسے معصوم بن رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں سازشوں سے ختم کیں۔ سیمل کامران، ماجدہ زیدی بھی چور مچائے شور کے نعرے لگاتی رہیں۔ جبکہ سیمل کامران پیسے واپس دو کا نعرہ بلند کرتی رہی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے اپنے ہینڈ بیگز میں چھپائے پلے کارڈ کھول کر اٹھا لئے۔ ساجدہ میر، نرگس فیض ملک، شازیہ عابد، آصفہ فاروقی نے جو پلے کارڈ اٹھائے ان پر یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور، 1990ءمیں پیسے لینے والے قوم سے معافی مانگیں اور ان مجرموں کو نااہل قرار دیا جائے۔ شوکت بسرا نے مزید کہاکہ سازش میں جو لوگ ملوث ہیں سیاسی، اخلاقی اور قانونی طور پر ان کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لیں۔ وزیراعلیٰ کے بڑے بھائی پر بھی پیسے لینے کا الزام ہے لہٰذا انہیں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی احسان الحق نولاٹیا نے کہاکہ 90ءکے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ داروں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ حال ہی میں ہمارے وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا، ہم نے عدلہی کے ہر فیصلے کو تسلیم کیا لیکن (ن) لیگ والوں نے کبھی احترام نہیں کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور صوبائی وزیر چودھری عبدالغفور نے پیپلزپارٹی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ کسی کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ سامنے لائے۔ پیپلزپارٹی منظور وٹو کو لاکر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی والوں کو ایف آئی اے والوں پر اعتماد ہوتا تو بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات غیرملکی ایجنسی سے کیوں کراتے۔ انہوں نے کہاکہ بے نظیر کے قتل سے کس کو فائدہ پہنچا جس شخص پر رینٹل پاور سکینڈل میں ملوث ہونے کا الزام ہے اسے سیاست سے الگ ہونا چاہئے، بحث میں ملک عامر ڈوگر، سامعہ امجد، نرگس فیض ملک نے بھی حصہ لیا۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران بار بار حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی آپس میں بار بار نوک جھونک اور نعرے بازی بھی ہوتی رہی۔ اجلاس کورم کی نشاندہی پر آج 8نومبر صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں پنجاب میں گنے کا کرشنگ سیزن 15نومبر سے شروع کرنے کے مطالبے کا صوبائی وزیر زراعت احمد علی لولکھ آج ایوان میں جواب دیں گے۔ اجلاس کے دوران سعید اکبر نوانی نے کہا کہ گنے کے کاشتکاروں کا استحصال جاری ہے۔ گنے کا کرشنگ سیزن پہلے اکتوبر میں شروع ہو جاتا تھا پھر شوگر مل مالکان نے 15نومبر کر دیا اور گزشتہ سال دسمبر میں شوگر ملیں چلائی گئیں۔ اب شوگر مل مالکان دسمبر اور جنوری میں کرشنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر سپیکر نے کہا کہ وزیر زراعت اس بارے میں آج جمعرات کو ایوان کو تفصیل بتائیں گے۔