قائداعظم کے پاکستان کیلئے ریفرنڈم
الطاف حسین کی کچھ باتوں کے لئے میں قائل ہوں ورنہ کراچی والے تو ان کے گھائل ہیں۔ وہ جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بولتے ہیں۔ وہ حکومت میں ہیں اور ایک مضبوط اپوزیشن بھی ہیں۔ شاید حکومتی اتحاد کے بغیر بات نہیں بنتی۔ اتحاد کے مقابلے میں صرف فساد ہے۔ باقی صرف مفاد رہ جاتا ہے۔ ریفرنڈم کے لئے انہوں نے بات کی ہے۔ یہ کوئی چائس نہیں۔ ریفرنڈم کے بغیر لوگ صرف قائداعظم کے پاکستان کے لئے اپنی رائے دیں گے۔ مگر سیاستدان حکمران ”انٹی پاکستان“ اور نام نہاد لبرل صاحبان قائداعظم کا پاکستان بننے ہی نہیں دیتے۔ خود الطاف حسین نے کہا تھا کہ قائداعظم کو قتل کیا گیا ہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔ قائداعظم کے پاکستان کے خلاف سازش شروع ہو گئی تھی۔ قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بھی قتل کیا گیا تھا۔ انہیں صدارتی انتخاب (ریفرنڈم) میں ہروایا گیا۔ وہ مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں تو پھر بنگلہ دیش کیوں بنایا گیا۔ اس میں برطانیہ امریکہ اور بھارت شامل تھے۔ وہ صدر پاکستان ہوتیں تو بنگلہ دیش نہ بنتا اور صدارتی نظام پاکستان کے لئے سیاسی نظام بنتا اور ہمارا یہ حال نہ ہوتا اور نہ الطاف حسین کو ”طالبان یا قائداعظم کا پاکستان“ کے لئے ریفرنڈم کرانے کی ضرورت محسوس ہوتی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ الطاف حسین کی ضرورت نہیں تو پھر کس کی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے دو ریفرنڈم ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کا۔ ان کا کیا حال ہوا۔ الطاف حسین کے ریفرنڈم کا کیا حال ہو گا۔ اب یہ تیسرا ریفرنڈم ہے۔ تو کیا یہ جنرل الطاف حسین کا ریفرنڈم ہے۔ الطاف حسین کو ساری دنیا الطاف بھائی کہتی ہے۔ یہ سیاسی بھائی چارہ بہت اچھا ہے۔ یہاں بھائی سے مطلب رشتہ بھی ہے مگر بھائی کا لفظ لیڈر کے معنوں میں آتا ہے۔ جب اسے الطاف حسین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس طرح بی بی کے لفظ کو شہید بے نظیر بھٹو کی وجہ سے عزت اور مقام ملا۔ بے نظیر بھٹو کو جیالے لیڈر کی بجائے بی بی کہتے تھے حتیٰ کہ صدر زرداری بھی اپنی بیوی کو شہادت کے بعد بی بی کہنے لگے ہیں۔ زندگی اور موت دونوں زرداری صاحب کے لئے سیاسی نعمت ثابت ہوئیں۔ الطاف بھائی صدر زرداری رحمان ملک اور ملالہ یوسف زئی کے والد سے پوچھ لیں کہ وہ طالبان کے پاکستان یا قائداعظم کے پاکستان کے حق میں ہیں؟ صدر زرداری نے اپنے آپ کو بڑا شاطر سیاستدان ثابت کر دیا ہے۔ وہ اگر چاہیں تو قائداعظم کا پاکستان بنا سکتے ہیں۔ الطاف حسین بھی اس کے ساتھ ہیں۔ آخر قائداعظم کا پاکستان کیوں نہیں بنتاہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے۔ زرداری صاحب پاکستان کے علاوہ کیا کسی ملک میں صدر بن سکتے ہیں۔ انہیں اتنی عزت اور موقع ملا ہے وہ قائداعظم کا پاکستان بنائیں۔
ایک ریفرنڈم قائداعظم نے بھی کروایا تھا اور پشاور کے پٹھانوں اور سارے انسانوں نے قائداعظم کے حق میں ووٹ کیا تھا۔ تو اب تک پشاور میں ہی قائداعظم کا پاکستان بن جاتا سرحدی گاندھی باچا خان کو پاکستان سے باہر اپنی قبر کے لئے جگہ ڈھونڈنا پڑی۔ سنا ہے اے این پی والے ان کے پوتے اسفند یار ولی کی قیادت میں ان کی لاش پاکستان میں لا کے دفن کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ائرپورٹ کا نام ان کے نام پر ہے۔ نصابی کتابوں میں قائداعظم کی بجائے ان کی تصویریں شائع ہونے والی ہیں۔ قائداعظم نے جس صوبے کا نام ریفرنڈم کے بعد صوبہ سرحد رہنے دیا تھا۔ اسے پختون خوا کا نام اٹھارویں ترمیم میں دیا گیا۔ اس کے لئے اسفند یار ولی امریکہ کے بعد صدر زرداری کے احسان مند ہیں۔ وہ اس کا اظہار بار بار اور برملا کرتے ہیں۔ اس کے لئے انہیں نواز شریف کا بھی ممنون احسان ہونا چاہئے کہ اٹھارویں ترمیم ان کی رضامندی کے بغیر منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ شرط تھی اسفند یار ولی کی تو کیا نواز شریف کالاباغ ڈیم کی شرط نہیں لگا سکتے تھے۔ حیرت ہے کہ اسفند یار اور ان کے آباﺅ اجداد میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر لیتے۔ صدر زرداری نے خود کو طاقتور سیاستدان ثابت کیا ہے اور نواز شریف نے خود کو صدر زرداری کی حکومت یعنی جمہوریت کا حامی ثابت کیا ہے۔ نواز شریف کی قربانی زیادہ ہے کہ ہزارہ کے وفادار لوگ اب نواز شریف کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں۔
ریفرنڈم کے لئے جو سوال ہے اس پر مجھے اعتراض ہے کیا یہ ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔ کہ ہم پاکستان کے حق میں ہیں یا برطانیہ کے حق میں ہیں۔ یہ سوال صرف رحمان ملک سے پوچھا جا سکتا ہے۔ ریفرنڈم ہو۔ اس سے پہلے کہ پاکستان کسی قدرتی یا زمینی حادثے کا شکار ہو۔ اس میں یہ بات بھی شامل کر لی جائے کہ کسی امریکی یا برطانوی حادثے کا شکار ہونے سے اللہ پاکستان کو بچائے۔ یہ سب حادثے حکمرانوں سیاستدانوں اور ”افسرانوں“ کی وجہ سے آتے ہیں قائداعظم نے یہ ملک غریب مسلمانوں اور انسانوں کے لئے بنایا تھا۔ امیر کبیر ظالم حکموں اور کرپٹ سیاستدانوں نے پاکستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ اللہ پاکستان کو اس قبضہ گروپ سے بچائے۔
مجھے تو یہ باتیں بھی اچھی نہیں لگی تھیں جو ذوالفقار مرزا نے الطاف بھائی کے لئے کہیں۔ مگر رحمان ملک کے لئے یہی باتیں بری نہیں لگی تھیں۔ ایم کیو ایم والے رحمان ملک کو ”ڈپٹی الطاف حسین“ سمجھتے ہیں۔ مرزا صاحب کی کیا جرات تھی کہ یہ بات کرتے۔ انہوں نے یہ سب ڈرامہ صدر زرداری کے کہنے پر کیا تھا۔ صدر زرداری ان کے گھر گئے اب وہ بالکل ”گونگے“ ہو گئے ہیں۔ صدر زرداری الطاف حسین کے گھر لندن بھی گئے تھے مگر الطاف کو کوئی خاموش نہیں کرا سکتا۔
ایک کالم نگار نے الطاف حسین کے ریفرنڈم میں تبدیلی کی ہے۔ قائداعظم کا پاکستان یا ایم کیو ایم کا پاکستان۔ مولانا فضل الرحمن نے تو حد کر دی ہے۔ ”قائداعظم کا پاکستان یا الطاف حسین کا پاکستان“۔ طالبان بھی کئی قسم کے ہیں۔ نجانے الطاف بھائی کا اشارہ کس طرف ہے۔ افغان طالبان۔ پاکستانی طالبان۔ کچھ لوگ عمران خان کو طالبان خان کہتے ہیں۔ طالبان کو ظالمان کہنے والے بھی ہیں۔ کچھ ”مجرمان“ ہیں جو طالبان بنے ہوئے ہیں۔ کچھ سرکاری طالبان ہیں کہ ہر کارروائی کا الزام ان پر ڈال کر آرام سے بیٹھ جایا جاتا ہے۔ وہی اس کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتے ہیں۔ کچھ طالبان بھارت نے بنائے ہوئے ہیں کچھ امریکہ نے بنائے ہوئے ہیں۔ امریکی طالبان بھی ہیں جن کا لیڈر ریمنڈ ڈیوس تھا۔ اب نجانے کون ہے۔ بے چارے ووٹرز کنفیوز (پریشان) ہو جائیں گے۔ الطاف حسین سے گذارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ایک ٹیلی فونک خطاب کریں۔ یہ بھی بتائیں کہ یہ ریفرنڈم صرف کراچی میں ہو گا یا پورے پاکستان میں ہو گا۔ پنجاب میں اب ایم کیو ایم بہت زوروں پر ہے۔ یہاں دوستوں نے بہت کام کیا ہے ملتان سے راﺅ خالد کا فون آتا رہتا ہے۔ لاہور میں دفتر ایم کیو ایم میرے ہمسائے میں ہے۔ بہت رونق رہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکن بہت مخلص اور محنتی ہوتے ہیں۔ جماعت میں ڈسپلن بھی بہت ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ ریفرنڈم ملتوی کیوں ہوا؟ اس حوالے سے بڑی باتیں ہو رہی ہیں؟ یہ بھی آئندہ انتخابات کی طرح زیر بحث ہے۔ البتہ ریفرنڈم سے پہلے بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر تحریک پاکستان چلائی جائے۔