• news

رینٹل پاور کیس: اربوں لوٹے گئے‘رقم واپس نہ ملی تو نیب کو ادا کرنا ہو گی: چیف جسٹس

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+ثناءنیوز) سپریم کورٹ نے رینٹل پاور عمل درآمد کیس میں قومی احتساب بیورو سے بارہ نومبر تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔درخواست گذار اور سابق وفاقی وزیر فیصل صالح حیات نے بتایا سات ماہ قبل عدالت نے تاریخ ساز فیصلہ سنایا تھا لیکن نیب نے اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا اور ترکی کے کارکے رینٹل پاور کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے کہا نیب نے کارکے سے واجب الادا چوبیس ارب روپے سے زائد رقم بھی وصول نہیں کی لہذا عدالت اس خلاف ورزی پر معاملے کی تحقیقات کرائے۔دوران سماعت نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کارکے کمپنی نے 17.20 ملین ڈالر کی رقم واپس کرنی ہے اور نیب اس حوالے سے کارروائی کر رہی ہے۔اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا نیب 17.20جبکہ فیصل صالح حیات بائیس ارب روپے کے اعداد و شمار دے رہے ہیں، دونوں رقوم میں اتنا فرق کیوں ہے؟چیف جسٹس نے اس موقع پر استفسار کیا، نیب ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے سے کیوں ڈر رہا ہے جبکہ عدالتی فیصلہ موجود ہے؟۔انہوں نے کہا عدالت کا یہی فیصلہ عالمی ثالثی معاہدوں میں بھی نیب کے کام آسکتا ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا ملک و قوم کے اربوں روپے لوٹ لئے گئے لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں، رینٹل پاور منصوبوں سے متعلق کارروائی میں نیب کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آ رہا۔ ان کا کہنا تھا نیب کارروائی نہیں کر سکتی تو معاملہ ایف آئی اے کو سونپ سکتے ہیں، کرائے کے بجلی گھروں نے رقم ادا نہ کی تو وہ رقم نیب سے وصول کی جائے گی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے نیب کیس کو مس ہینڈل کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ٹیکنیکل طور پر معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سات ماہ میں نیب نے اس کیس میں کوئی کام نہیں کیاکسی کو تو ملک کی رقم کا احساس ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سے استفسار کیا کارکے میں کسی کے خلاف آپ نے کرمنل ایکشن لیا۔ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کارکے نے رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ دوران سماعت فیصل صالح حیات کا کہنا تھا نیب اپنے طور پر ہی معاملہ طے کرنے کی کوشش کررہا ہے،کارکے بحری جہاز سے 24 ارب روپے وصول کرنا ہیں لیکن 22 ارب روپے معاف کرکے انہیں کہا جارہا ہے آپ چلے جائیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا عدالت سے باہر معاملات کیسے طے کئے جاسکتے ہیں، ہم یہ کیس ایف آئی اے کو بھی دے سکتے ہیں، اربوں روپے ملک سے باہر جار ہے ہیں ہمےں امید تھی نیب جلد کارروائی کرے گا مگر بہانے بازی کی جارہی ہے اورکارکے کےساتھ پلی بارگین کے نام پر خزانہ پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت بارہ نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو حکم دیا کارکے کمپنی کے جہاز کو ملک سے بھیجنے سے متعلق بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا جائے اور اس سکینڈل میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس نے نیب رپورٹ پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا قوم کے اربوں روپے لوٹے گئے اور ابھی تک کمپنی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی، رقم واپس نہ ملی تو نیب کو ادا کرنا ہو گی۔

ای پیپر-دی نیشن