• news

چیف جسٹس اور آرمی چیف میں کوئی جھگڑا ہے نہ بیانات آئین سے متصادم ہیں: مجید نظامی

لاہور (خصوصی رپورٹر) نوائے وقت گروپ کے ایڈیٹر انچیف مجید نظامی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، دونوں کے بیانات بھی آئین سے متصادم نہیں۔ روزنامہ جناح سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ یہ بیانات اتفاق سے ایک دن اکٹھے چھپ گئے لیکن یہ ایک دوسرے کا جواب نہ تھے۔ چیف آف آرمی سٹاف کی تقریر دراصل ان کے ساتھیوں اور فوج کا نکتہ نگاہ تھا جو انہوں نے بیان کر دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کسی پروگرام میں تقریر کے دوران اظہار خیال کیا ویسے بھی چیف جسٹس آف پاکستان ہر روز کسی نہ کسی جگہ ایسی باتیں کر رہے ہیں دونوں چیفس کے بیانات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ آئین سے متصادم نہیں اور یہ اخبارات میں ابھی تک واضح نہیں ہوسکا نہ ہی کسی نے ریسرچ کی ضرورت محسوس کی ہے کہ کس ماحول میں یہ تقریریں کی گئیں فوج کے سابقہ پس منظر کے بارے میں مجید نظامی نے کہا کہ واقعی وہ زمانہ گزر چکا ہے 50ءکی دہائی میں ڈکٹیٹر دوچار ٹینک لے کر حکومت پر قابض ہو جاتے اور میرے عزیز ہم وطنو کہہ کر تخت نشین ہو جاتے تھے، یہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاءالحق یا پرویز مشرف کا دور نہیں اس میں کوئی شک نہیںکہ ماضی میں فوج کو ہر ادارے پر بالادستی رہی ہے جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہے عدلیہ مقننہ، انتظامیہ مگر چوتھا ستون بن کر فوج ہی بالادست رہی ہے، صحافت ریاست کا چوتھا ستون نہیں کیونکہ وہ حکومت نہیں ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے سے مجید نظامی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ میں نے موجودہ آرمی چیف سے زیادہ کم گو نہیں دیکھا ہو گا ان میں قابلیت موجود ہے مگر وہ جھگڑالو نہیں ہیں اس لئے بہتر ہے ان پر جھگڑا نہ ڈالا جائے، نہ ہی ان بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانا چاہئے، اس بحث کا باب بھی بند ہونا چاہئے، موجودہ حالات اس کے متقاضی بھی نہیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے بالادستی کے حوالے سے مجید نظامی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ کو بالادستی حاصل ہے پارلیمنٹ جو فیصلے کرتی ہے سپریم کورٹ بالادست ادارے کے طور پر قوانین کی تشریح کرتی ہے، اس کے مطابق قانونی فیصلے کرتی ہے، الیکٹرانک میڈیا پر مختلف موضوعات کا سہارا لے کر فوج پر کی جانے والی تنقید کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ فوج کاکام ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور وہ اس کی ضامن ہے اس لئے قومی سلامتی کے اداروں پر میڈیا کی تنقید ناقابل معافی ہے، میڈیا کو وہ کام نہیں کرنا چاہئے جو قوم و ملک کے لئے نقصان دہ ہو بلکہ وہ کام کرنے چاہئیں جس سے قوم کا فائدہ ہو یہی قوم کو راہ راست پر چلانے کا طریقہ کار ہے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شہبات کو رد کرتے ہوئے مجید نظامی نے کہا کہ انتخابات ضرور ہونے چاہئیں اگر خدانخواستہ انتخابات نہ ہوئے تو ملک خانہ جنگی کی نذر ہو جائے گا، اس حوالے سے میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہئے اور انتخابات کے حوالے سے لکھنا چاہئے، اصغر خان کیس اور نیب کیس میں پیش ہونے والے سابق فوجی جرنیلوں کے میڈیا کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ جرنیلوں نے کسی کو ایڈیٹ، شٹ اپ کہا اس روئیے سے انہوں نے اپنا امیج پیش کیا میڈیا کی بے عزتی ضرور کی لیکن اپنا امیج پیش کیا کہ ہم کیسے لوگ ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن