عبوری دور کے تقاضے
آرمی چیف اور چیف جسٹس کے بیانات میڈیا کے لئے ایک سنسنی خیز مواد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لئے اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے دونوں کے بیانات کو جو اتفاق سے ایک ہی دن سامنے آئے‘ انہیں خوب اچھالا۔ بعض حلقے جنہیں سازش کے نظریات "Consipracy Theoreis" بہت مرغوب ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ دونوں چیفس کے بیانات کا ایک ہی دن آنا محض اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے بہت کچھ ہے۔ سنجیدگی سے غور کرنے والے اہل فکر کا خیال ہے کہ پاکستان چوں کہ ایک پرانے سیاسی نظام کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہا ہے‘ وہ بتدریج ایک آزاد جمہوری نظام کے قیام کے تجربے سے گزر رہا ہے‘ اس لئے عبوری دور میں اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ ان اہل فکر و نظر کی رائے میں ایک پرانے نظام کی جگہ جب نیا نظام آتاہے تو اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کا ہم ان دنوں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حکومت پہلی حکومت ہے جو فوج کی چھتری کے بغیر اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔ گزشتہ روز ایبٹ آباد میں چیف جسٹس نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں مختلف ہیں کیوں کہ انہوں نے آئین کی پاسداری کی ہے۔ چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کو شاباش بھی دی۔
اس بات سے کون انکار کرے گا۔ 1977ءکے مارشل لاءسے لے کر 2008 کے انتخابات تک پاکستان کا جمہوری نظام ایک نیم جمہوری نظام تھا جو ایک حد تک فوج کی چھتری کے نیچے کام کر رہا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد مارشل لاءاٹھایا اور ایک نیم جمہوری نظام بحال کیا تھا تو اس نظام کو آئین کی آرٹیکل (2) 58 بی کے تحت کر دیا گیا تھا۔ ایک طویل بحث مباحثے اور رات کی تاریکیوں میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد 1985ءمیں منتخب ہونے والے ارکان نے جنرل ضیاءالحق کی شرط مان لی کہ آئین میں نئی شق آرٹیکل (2) 58 بی شامل کی جائے گی۔ جس کے تحت صدر کسی بھی وقت حکومت کو آئین کے مطابق کام نہ کرنے پر چلتا کرے گا اور اسمبلی تحلیل کر کے نوے دن میں نئے انتخابات کرائے گا۔ جنرل ضیاءالحق اور ان کے رفقاءآرٹیکل (2) 58 بی کو آئین میں شامل کئے بغیر مارشل لاءاٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد بھی آرٹیکل (2) 58 بی کے ذریعہ منتخب حکومتوں پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی قائم رہی۔ 1990ئ‘ 1993ءاور 1996ءکی حکومتیں آرٹیکل (2) 58 بی کے ذریعہ گھر بھیجی گئیں۔ سویلین صدر غلام اسحاق خان اور فاروق خان لغاری نے فوج کی ایماءپر ہی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کو ختم کیا۔ 1990ءمیں جو ہوا اس کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے۔ اس فیصلے کے مضمرات اور اس پر امکانی عملدرآمد کے حوالے سے ان دنوں میڈیا میں گرماگرم بحثیں ہو رہی ہیں۔
جنرل مشرف کے ٹیک اوورکے بعد آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ ماضی کے آزمودہ فارمولے ریفرنڈم کے ذریعہ جنرل مشرف کو ”صدر مشرف“ بنایا گیا۔ فوج کے ایک اور آزمودہ نسخے کے تحت 2002ءکے انتخابات کرائے گئے‘ پارلیمنٹ وجود میں آئی‘ وزیراعظم بھی بنے لیکن اصل اختیارات صدرکے ہاتھوں میں رہے۔
جنرل مشرف اقتدار سے ماضی کے حکمرانوں کی طرح بے توقیر ہو کر نکلے اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ 2008ءکے انتخابات میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سیاست سے نکال کر اسے غیر جانبدار بنایا۔ اگر ماحول اور حالات تبدیل نہ ہوگئے ہوتے تو 2008ءکے بعد موجودہ حکومت نے جو کچھ کیا اور ملک میں جو واقعات رونما ہوئے ان کی بنیاد پر فوج کب کی اقتدار سنبھال چکی ہوتی۔ بلکہ جنرل کیانی کو اقتدار سنبھانے کے لئے کئی خط بھی لکھے گئے لیکن فوج سیاست سے الگ رہی۔ فوج چوں کہ اب سیاست سے الگ ہونے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ لیکن ماضی کی غلطیوں کے حوالے سے اگر فوج اور اس کی قیادت کو مطعون کیا جائے گا تو پھر اسی طرح کا ردعمل ہو گا جس کا اظہار جنرل کیانی نے کیا ہے۔ جنرل کیانی نے جی ایچ کیو میں اپنے خطاب میں آگے بڑھنے کا ایک نسخہ تجویز کر دیا ہے کہ ماضی میں جرنیلوں‘ ججوں اور سیاست دانوں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور مستقبل کی بہتر تعمیر کرنا چاہئے۔ اگر ہم نے ایک مکمل جمہوری نظام کو تشکیل دینا ہے تو پھر اس کا آسان نسخہ وہی ہے جو جنرل کیانی نے تجویز کیا ہے۔ حکومت اگر سپریم کورٹ کے اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کرتی ہے تو یہ اس کا استحقاق ہے لیکن حکومت تو اس فیصلے سے صرف سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ سویلین اور فوجی قیادت میں تعلقات کار نئے سرے سے تشکیل پا رہے ہیں۔ ابھی مکمل اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ اس عبوری مرحلے میں ہمیں طعن و تشنیع اور ایک دوسرے پر بالادستی کی باتیں کر کے ماحول کو مکدر کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ آئین کے مطابق ایک جمہوری نظام اور نئی روایات کی تشکیل کے لئے صبر و تحمل اور فہم و فراست سے کام لینا ہو گا۔ اپنا اپنا غصہ نکالنے سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔