رقم کے بارے میں بینظیر حکومت کو تفصیل دیکر بڑی غلطی کی: اسد درانی
اسلام آباد (اے پی اے) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں لیکن یہ آئین کے خلاف تھا یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اسد درانی کا کہنا تھا کہ اس طرح کا کوئی بھی کام قانون دیکھ کر نہیں کیا جاتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ 1990ءمیں بینظیر حکومت قانون کے ہی مطابق صدر کے اختیار اٹھاون ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔ اسد درانی کے بقول اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی حالات کے مطابق صحیح نہیں جا رہی اس لئے انہوں نے اسے سبق سکھانے کے لئے ایسا کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکم بجا لانا فوج کی تربیت میں شامل ہوتا ہے۔ حکم عدولی کی صورت میں بھی ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ہونا تھی۔ آئی جے آئی کی تشکیل کے حوالے سے اسد درانی نے کہا یہ اتحاد انیس سو اٹھاسی میں جنرل ضیاءالحق کے انتقال کے بعد بنا۔ اسد درانی کے بقول آئی جی آئی کے بنائے جانے کے پیچھے یہی نظریہ تھا کہ جمہوریت چلانے کے لئے ملک میں دو بڑی پارٹیاں ہونی چاہئیں چونکہ اس وقت پیپلز پارٹی مضبوط حیثیت اختیار کر چکی تھی اس لئے دیگر سیاسی دھڑوں کو متحد کر کے ایک پارٹی بنائی جائے۔ آئی جی آئی کے تخلیق کاروں کے بارے میں اسد درانی کا کہنا تھا کہ ان میں حمید گل، غلام اسحاق اور اسلم بیگ شامل تھے۔ اسد درانی نے کہا کہ انہوں نے بہت بڑی غلطی کی۔ فوجیوں کو سیاسی معاملات کی سمجھ نہیں آتی۔ اس لئے بطور سفیر حکومت پر اعتبار کیا۔ اسد درانی کے بقول ان سے کہا گیا کہ جو بھی تفصیل ہے وہ دے دیں جو ایک خفیہ عمل کا حصہ ہے۔ ”بہت اصرار پر انتہائی خفیہ معلومات وزیراعظم (بینظیر بھٹو) کو دیں۔ یہ علم نہیں تھا آگے چل کر سیاسی مفاد کے لئے انہیں اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔