سینٹ : کراچی میں بدامنی پر اے این پی کا واک آﺅٹ‘ عشرہ محرم کے دوران کوئٹہ میں فوج بلائی جائے : ارکان کا مطالبہ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) کراچی میں بدامنی کی صورتحال پر اے این پی نے سینٹ کے اجلاس سے واک آﺅٹ کیا جبکہ ارکان نے مطالبہ کیا کہ عاشورہ کے 10 روز کے لئے کوئٹہ میں فوج طلب کی جائے اور امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کے لئے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔ سینٹ کا اجلاس مولانا عبدالغفور حیدری کی زیرصدارت ہوا۔ اے این پی کے سینیٹر شاہی سید کا کہنا تھا کہ حکومت کو لکھ کر دیا ہے بلاامتیاز کراچی میں آپریشن کیا جائے۔ پولیس اور ایجنسیاں کراچی میں کہیں نظر نہیں آتیں، فوج کو دعوت نہیں دینا چاہئے لیکن رینجرز اور پولیس کچھ نہیں کر رہی ایسا نہ ہو کہ عوام اُٹھ کھڑے ہوں کہ کراچی میں فوج کو لایا جائے، عوام یہ نہ کہہ دیں کہ جمہوریت سے بہتر فوجی حکومت ہے، کراچی میں 5 فیصد طالبان اور 95 فیصد جرائم پیشہ افراد ہیں، یہ جمہوریت کا انتقام ہے کہ روزانہ 20، 30 نعشیں گر رہی ہیں، کراچی میں فوج سے نہیں تو رینجرز اور پولیس سے آپریشن کرایا جائے، کراچی میں ہر قومیت اور پارٹی کے لوگ مارے جا رہے ہیں، سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ وزیرستان میں اتنی نعشیں نہیں گر رہیں جتنی کراچی میں۔ عاشورہ سے پہلے کراچی کو تباہی سے روکنا ہو گا۔ کراچی بارود کا ڈھیر بن گیا ہے، شہر کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ سینٹ نے سابق سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر قانون اقبال حیدر کے انتقال پر تعزیتی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی جس میں کہا گیا ہے کہ اقبال حیدر ایک کہنہ مشق سیاستدان، ماہر قانون، انسانی حقوق کے علمبردار اور ایک نفیس انسان تھے قائد ایوان جہانگیر بدر نے قرارداد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اقبال حیدر نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کے خلاف جمہوری جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ایم حمزہ، سینیٹر زاہد خان، کریم خواجہ، فریحہ امیرالدین، کاظم خان، سینیٹر مشاہد حسین نے مرحوم کی سیاسی زندگی پر روشنی ڈالی اور ان کی سیاسی اور علمی خدمات کو زبردستی خراج تحسین پیش کیا۔ سینیٹر مفتی عبدالستار نے مرحوم کی روح کی ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرائی۔ اجلاس میں بلوچستان ، کراچی، گلگت بلتستان میں ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ تشدد کے خصوصی حوالے سے ملک میں امن و امان کی موجودہ صورتحال پر ہونیوالی بحث میں حصہ لیتے ہوئے مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ کراچی میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، جامعہ احسن العلوم کے طلبہ دہشت گردی کا نشانہ بنے کراچی کوئٹہ میں ایسے واقعات روزانہ ہو رہے ہیں لیکن قاتل گرفتار نہیں ہوتے یہ وہی عناصر ہیں جو جن سے چاہیں بھتہ وصول کریں اغوا کریں جائیداد پر قبضہ کریں۔ سینیٹر حسیب خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی بل پر جب دستخط ہو رہے تھے تو ہمارے تمام ممبران باہر بیٹھے ہوئے تھے جو ان کی توہین ہے اس بل کیلئے تمام ممبران نے دن رات محنت کی ہماری درخواست ہے کہ تمام ممبران کی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کروائی جائے جس پر چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے ہدایت کی کہ قائد ایوان اس ملاقات کا انتظام کرے۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ سندھ حکومت کو مصالحت سے باہر نکل کر اقدامات کرنے ہونگے تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنی چاہئے عاشورہ سے پہلے ان معاملات کا تدارک نہ کیا گیا تو مسئلہ خراب ہو گا۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ حکومت عوام کی جان ومال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے سندھ حکومت اربوں روپے رینجر کو دے رہی ہے لیکن سندھ پولیس کوکیوں تیار نہیں کیا جا رہا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دینا چاہتے کراچی میں جب تک روزانہ بیس افراد نہ مارے جائیں تو دہشت گردوں کو سکون نہیں آتا حکومت ایوان کو بتائے کہ انہوں نے کیا اقدامات کئے ہیں۔ سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں کئی ٹن کاغذ کراچی امن و امان، بلوچستان کیلئے کالے کئے گئے لیکن کسی کاغذ کو پذیرائی نہیں ملی سب کاغذی کارروائی تھی یہ وقت عملی اقدامات کا ہے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر حکومت کی ناکامی اور نااہلی بھی ہے کراچی، کوئٹہ میں کوئی پرسان حاصل نہیں کراچی میں آٹھ ہزار مسلح افراد پکڑے گئے لیکن کسی کا چالان پیش نہیں ہوا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اس وقت جو عناصر چاہتے ہیں کہ پاکستان کمزور ہو وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتے ہیں، کراچی، بلوچستان میں پولیس کا کام ہے ہم نے پولیس کوکمزور کیا وسائل فراہم نہیں کئے گئے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان کا ہے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے چیف سیکرٹری بلوچستان کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے رپورٹ مرتب کر کے ایوان میں پیش کی جائے۔اے این پی کے ارکان نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں ایمرجنسی لگائی جائے
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) ملک کے طول و عرض میں بدامنی اور بطور خاص بلوچستان و کراچی میں خونریزی پر پیر کی شام ایوان بالا میں نوحے پڑھے گئے۔ مقررین کے لہجوں میں، رنج و الم، غصہ اور بے بسی نمایاں تھی۔ اتحادیوں نے بھی حکومت کو ناکام اور نالائق قرار دے دیا۔ اس موضوع پر بحث ایوان کے ایجنڈے میں شامل تھی لیکن حکومت کی بے اعتنائی کا یہ عالم تھا کہ وزراءکی تمام نشستیں خالی تھیں۔ اصلاح احوال کے ذمہ داروں میں سے کوئی موجود نہیں تھا۔ چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے ایک سینیٹر بھجوا کر قائد ایوان جہانگیر بدر کو کارروائی میں شرکت کیلئے بلایا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کی حسب معمول ڈھنڈیا پڑی تھی ۔اجلاس پیر کی شام خاصی تاخیر سے شروع ہوا۔سابق وزیر قانون اقبال حیدر مرحوم کو جو اس ایوان کے رکن بھی رہے خراج تحسین پیش کیا گیا، چیف سیکرٹری بلوچستان کی خودسری کی شکائت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر متعلقہ مجلس قائمہ میں پیش کیا جائے۔ بلوچستان و کراچی،گلگت اور بلتستان میں فرقہ وارانہ تشدد و ٹارگٹ کلنگ ایجنڈے کا سب سے اہم موضوع تھا۔ مقررین نے منطقی و معلومات افزاءخطاب کئے جن میں اہم انکشافات کئے گئے۔ سینٹ کی مجلس قائمہ برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے کہا کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مسلح جتھے خونریزی کے ذمہ دار ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کے حالت حکومت کی ناکامی اور نالائقی کا کھلا ثبوت ہیں۔ انہوں نے بدامنی کے باعث الیکشن متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے قومی اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں۔ موجودہ وفاقی حکومت کے سابق وزیر قانون بابر اعوان نے کافی عرصہ بعد ایوان میں خطابت کے جوہر دکھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان و کراچی کے حوالے سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔سینیٹر مفتی عبدالستار نے اس موضوع پر گفتگو کی۔ اپنی سادگی کے سبب وہ قرون اولیٰ کا نمونہ دکھائی دے رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پورا بلوچستان بنجر پڑا ہے۔ محسن لغاری نے کہا کہ کراچی میں رینجرز سے پولیس کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ انٹیلی جنس ادارے درست کام نہیں کر رہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے بتایا بدامنی کی انتہا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینیٹر الماس پروین ایک روز کے دوران اپنے دو جوان بھانجوں اور بھتیجوں سے محروم ہو گئی ہیں۔