جنرل علی قلی خان اور جرنیلی سیاست
میرے ساتھ جنرل علی قلی خان نے رابطہ کیا۔ انہوں نے میرا وہ کالم پڑھا تھا جو تحریک انصاف جائن کرنے پر میں نے ان کے لئے لکھا تھا۔ وہ نوائے وقتیے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ ایسے لوگ تحریک انصاف میں جائیں مگر کوئی دوسرا آدمی نہیں۔ جنرل علی قلی جیسے لوگ کم کم ہیں جو صاحب سیف ہوں اور صاحب دل بھی ہوں۔ جاوید ہاشمی کا عمران کو جائن کرنا ایک بڑا واقعہ تھا مگر اب ایک حادثہ لگتا ہے۔ شکر ہے کہ اس نے عمران کے لئے کوئی ایسا بیان نہیں دیا جو وہ نواز شریف کے لئے دیا کرتا تھا۔ جو کچھ عمران کے دل میں کسی نے رکھ دیا ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔ جنرل علی قلی خان کے لئے میں عمران کو مبارکباد دینا چاہتا تھا مگر؟ جنرل علی قلی میرے پسندیدہ جرنیل ہیں اور جرنیل میرے خیال میں کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ مجھے جنرل ایوب خان بھی پسند ہیں مگر فیلڈ مارشل ایوب خان پسند نہیں ہیں۔ ہمارے میڈیا اور میڈیا جیسے کچھ لوگوں نے پاک فوج کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ جنرل ایوب نے اچھا نہ کیا۔ یہ بھی تو دیکھیں کہ تب سیاستدان کیا کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو پریشانی ہے کہ آج کل فوج مارشل لاءکیوں نہیں لگاتی۔ یہ بھی پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے اور جنرل کیانی اس سے واقف ہیں۔ وہ لوگ کھسیانا ہو کے کہہ رہے ہیں کہ جنرل کیانی کو فیلڈ مارشل بنایا جا رہا ہے۔ جنرل ایوب فیلڈ مارشل خود بخود بن گئے تھے اب یہ کام صدر زرداری سے کرایا جا رہا ہے۔ جنرل کیانی کو ایکسٹنشن بھی صدر زرداری نے دی تھی۔ مجھے پھر بھی جنرل کیانی پسند ہیں۔ وہ یہ بھی سوچیں کہ ان کے ساتھ سازش میں کون ملوث ہے۔
وہ لوگ اب بھی نواز شریف کے بڑے قریب ہیں جنہوں نے سینئر موسٹ جینوئن سپاہی بہادر جرنیل پاکستان سے محبت کرنے والے علی قلی خان کی بجائے جعلی اور جونیئر جرنیل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنوایا۔ چودھری نثار کہتا تھا کہ وہ اردو سپیکنگ ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی جب ایک بہت جونیئر جرنیل ضیاءالحق کو آرمی چیف بنایا تو یہی سمجھا کہ وہ اردو سپیکنگ ہے۔ حالانکہ وہ جالندھری تھا۔ دونوں نے صدر بن کے بھی اردو کو قومی زبان نہ بنایا۔ پشتو سپیکنگ علی قلی خان اردو بھی بہت دل سے بولتے ہیں۔
نواز شریف کو جو نقصان ہوا اس میں انہیں کئی فائدے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کو جو نقصان ہوا اس کے لئے احساس زیاں بھی کسی سیاستدان کو نہیں۔ انہیں وزیراعظم بننے کا انتظار ہے۔ نواز شریف جنرل کیانی کے بھی حق میں نہیں ہیں۔ وہ ان کی ایکسٹنشن کے خلاف تھے۔ خواہ دوسرا جرنیل آ کے 7 مارشل لاءہی لگا دے۔ جو مارشل لگائے اور جو نہ لگائے۔ دونوں نہیں تو پھر کس طرح کا جرنیل پسند ہے؟
میں یہ بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر یہ بات بھولتی ہی نہیں۔ یہ اکیلا دکھ اب کتنے دکھوں میں منتقل ہوا ہے۔ کیا یہ ماننے والی بات ہے کہ صدر مشرف کی جگہ جنرل علی قلی خان ہوتے تو وہ بھی امریکی وزیر خارجہ کولن پاﺅل کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے؟ تم ہمارے ساتھ ہو یا اسامہ کے ساتھ ہو۔ جنرل علی قلی خان کہتے ہیں کہ میں پاکستان کے ساتھ ہوں مگر یہ کیوں ہوتا کہ جنرل علی قلی خان کبھی مارشل لاءنہ لگاتے اور وزیراعظم کو امیرالمومنین بھی نہ بننے دیتے۔جمہوریت میں کوئی وزیراعظم بااختیار ہونے کے جنون میں خودمختار ہو جانا چاہتا ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے اگر سیاسی دور فوجی دور سے اچھا ہوتا تو لوگ کبھی مارشل لاءنہ لگنے دیتے۔ کیا پینٹاگان امریکہ میں صدر کو یہ اجازت دے گا کہ وہ وائٹ ہاﺅس کو بلیک ہاﺅس بنا دے۔ صدر اوبامہ کالا ہے مگر اسے وائٹ ہاﺅس کی روایات کا احساس ہے۔ آج جو جمہوریت ہے اسے نواز شریف اور عمران خان اور سارے سیاستدان جمہوریت نہیں مانتے۔ جعلی جمہوریت کہا گیا وہ پاکستان میں کھیلی جا رہی ہے جیسے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ جنرل کیانی سیاست اور حکومت میں آئے تو میں پہلا آدمی ہوں گا کہ ان کی مخالفت کروں گا۔ مگر میں ان سے یہ توقع بھی رکھتا ہوں کہ اگر سیاستدان آپے سے باہر ہوں اور پاکستان میں باہر کی سیاست لانے میں مبتلا ہو جائیں تو کوئی تو ان کی مانیٹرنگ کرے۔ جس طرح جنرل کیانی نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کرایا مگر اس کے بعد کوئی کام ایسا نہ ہو سکا۔ کوئی کام نہیں ہوا۔ بس ہم ہر میدان میں ناکام ہوئے ہیں۔ جنرل کیانی اگر جنرل کیانی ہیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کچھ تو جرنیلی دکھائیں۔ وہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں۔ جرنیلی سیاست جرنیلوں نے بھی کی سیاستدانوں نے زیادہ کی۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کو کسی سیاست سے فائدہ نہیں ہوا۔ فوجی حکمران بھی سیاسی حکمران سے مختلف نہیں ہوتا۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ وہ پہلے آدمی ہیں جن کے تحریک انصاف جائن کرنے پر لوگوں نے حیرت سے بھری ہوئی خوشی کا اظہار کیا۔ جاوید ہاشمی کے لئے بھی لوگوں کے جذبات اچھے تھے۔ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ جاوید ہاشمی کو اپنے اندر یہ بے قراری ہے کہ اس نے ن لیگ کو کیوں چھوڑا۔ خواجہ سعد رفیق آخر وقت تک انہیں مناتے رہے۔ کلثوم نواز بھی کوشش کرتی رہیں مگر یہ کام پہلے کیا گیا ہوتا وہ کام جو تحریک انصاف میں ہاشمی کو کرنا پڑے گا وہ ن لیگ میں رہ کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ پارٹی لیڈر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر دوستانہ اور متکبرانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ عمران کسی سے کم ڈکٹیٹر نہیں ہے جمہوریت کے محافظ کو پہلے اپنے آپ پر جمہوریت نافذ کرنا چاہئے۔ بھٹو صاحبان شریف صاحبان چودھری صاحبان اور کئی قسم کے سیاسی صاحبان کے بعد نیازی صاحبان کا زمانہ آیا ہے۔
جنرل علی قلی خان نے ابھی چند میٹنگز عمران کے ساتھ کی ہیں۔ وہ اس کے لئے اچھی رائے رکھتے ہیں۔ اللہ کرے وہ اچھا ثابت ہو۔ ایک یہودی کا ایک روپیہ گم ہو گیا۔ وہ ہر کہیں تلاش کر بیٹھا اور بیٹھ گیا۔ کسی نے کہا کہ اپنی جیب میں بھی ہاتھ ڈال لو۔ اس نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ اگر وہاں بھی نہ ملا تو میں مر جاﺅں گا۔ یہودی کے ذکر پر آپ کا دھیان کسی اور طرف نہیں جانا چاہئے۔ جمائما خان کے لئے بھی ”حاسدوں“ نے مشہور کیا تھا کہ وہ یہودی ہے۔ تب میں واحد کالم نگار تھا جس نے جمائما کے حق میں لکھا تھا۔ حالانکہ وہ یہودی ہے اور یہودی ماں باپ کی صاحبزادی۔ اسے طلاق ملنے پر بھی میں نے اس کے حق میں کالم لکھا تھا۔ جمائما کو طلاق دینے کے بعد عمران کی سیاست اور چمکی تو اس میں کیا راز ہے۔ منیر نیازی کے قبیلے کی ایک دبنگ خاتون یاسمین خان نے بتایا کہ اس کے گاﺅں کی ایک بزرگ عورت کہنے لگی۔ عمران خان اپنے گھر کو سنبھال نہیں سکا۔ ملک کو کیا سنبھالے گا مگر اس میں ایک امید کی بات ہے کہ جمائما اب بھی عمران کی سیاست کی حامی ہے۔ بلکہ مامی ہے۔
علی قلی خان کے ذکر سے کئی قابل ذکر باتیں یاد آ رہی ہیں۔ میں اس دل والے جرنیل سے نہیں ملا مگر ان سے محبت اتنی ہے کہ لگتا ہے ان سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور ملاقات کی کئی قسمیں ہیں۔ وہ اپنے باہر ایک مضبوط شخصیت ہیں۔ اپنے اندر ایک محبوب شخصیت ہیں اقبال کے شعروں کو لوگوں نے کہاں کہاں استعمال کر لیا ہے؟ ان کا یہ شعر جنرل علی قلی خان کے لئے پڑھنے کو جی کرتا ہے۔
ہو حلقہ¿ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال کا ذکر آیا ہے تو ایک رباعی بھی سن لیں اور جنرل علی قلی خان کی شخصیت کے لئے اندازہ لگائیں۔ اس پر عمران بھی غور کرے۔
تنے پیدا کن از مشت غبارے
تنے محکم تراز سنگیں حصارے
درونِ او دل درد آشنائے
چوں بوئے در کنارے کہسارے
مٹی کی مٹھی سے ایک وجود بناﺅ جو ناقابل تسخیر پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہو۔ مگر اس وجود میں ایسا دل ہو جو درد سے بھرا ہوا ہو جسے مضبوط پہاڑ کے دامن میں آہستہ خرام ندی بہہ رہی ہو۔