برطانوی ہاﺅس آف لارڈز میں خصوصی تقریب کا انعقاد‘ لداخ اور گلگت بلتستان کو تجارتی ‘ سیاحتی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے: مقررین
لندن (کے پی آئی ) برطانیہ کے ہاﺅس آف لارڈز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب کے دوران ماہرین اور مقررین نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ لداخ اور گلگت بلتستان کے درمیان لائن آف کنٹرول کو سرینگر مظفر آباد کی طرز پر نرم کرکے خطے کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس تین ملکوں کے میدان جنگ کے بجائے آزادانہ تجارت، سیاحت، معیشت اورتہذیبی تبادلے کے مرکز میں تبدیل کریں۔ اطلاعات کے مطابق ایک برطانوی تھنک ٹینک دی ہینری جیکسن سوسائٹی اور امریکی تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف گلگت بلتستان سٹیڈیز نے برطانیہ کے ہاﺅس آف لارڈز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس کے دوران مختلف شعبوں سے وابستہ سرکردہ ماہرین اور دیگر مقررین میں سے بیشتر اس بات پر متفق نظر آئے کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کو وادی کشمیر کے لداخ اور پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے درمیان لوگوں کی آمدورفت اور تجارت یقینی بنانے کے اقدامات اٹھانے چاہئے۔مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے انٹرنیشنل سینٹر فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ممتاز خان اورانسٹیٹیوٹ آف گلگت بلتستان سٹیڈیز کے پریذیڈنٹ سینگے ایچ سیرنگ نے اس بات پر زور دیا کہ لداخ اور گلگت بلتستان کے درمیان لائن آف کنٹرول کے آر پار روایتی روابط کی بحالی سے کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہائش پذیر10ہزار سے زائد منقسم خاندانوں کو قریب7دہائیوں کے بعد ایک دوسرے سے ملنے کا موقع فراہم ہوگا۔ اس اقدام سے ہمالیائی کلچر کو بحال کرنے میں مدد ملے گی اور نتیجے کے طور پر انتہا پسندی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور خطے کو تجارتی زون میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ شاہراہ ریشم کے جنوبی حصے کی بحالی سے جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا کے ساتھ ملانے سے خطے کی اقتصادی ترقی ممکن ہوپائےگی۔سینگے ایچ سیرنگ نے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ گلگت بلتستان سمیت ریاست جموں کشمیر کے مختلف حصوں کے درمیان اعتماد سازی کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ 10سال سے کم عمر کے بچوں اور60سال سے زائد عمر کے بزرگوں کو لداخ اور گلگت بلتستان کے درمیان بغیر کسی ویزا کے سفر کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ کنٹرول لائن پر دونوں طرف تعینات فوج کی تعداد میں کمی کی جائے۔ مسٹر سیرنگ نے کہا کہ افغانستان سے نیٹو فورسز کی واپسی سے جنوبی ایشیا میں چین کے کردار میں اضافہ ہوگا اور چین و پاکستان کو چاہئے وہ گلگت کے لوگوں کے جذبات اور تحفظات کا احترام کریں۔