• news

oکالا باغ ڈیم اتفاق رائے سے فوراً شروع کیا جا سکتا ہے: وزیر اعظم

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا آج بہت اہم دن تھا کیونکہ دو نشستیں ایسی ہوئیں جن میں پاکستان کے تمام وہ افراد شریک تھے جن کے پاس معاشی پالیسیاں بنانے اور لاگو کرنے کی اتھارٹی ہے۔ پہلی نشست فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ساتھ ہوئی جس میں چیئرمین ایف بی آر علی ارشد حکیم نے بہت دوستانہ ماحول میں صنعت و تجارت کے نمائندوں کی باتیں سنیں اور اپنی سنائیں۔ اس نشست پر تبصرہ کرتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور پیاف گروپ کے بڑے لیڈر میاں انجم نثار نے کہا ”صنعت و تجارت کے نمائندے آج خوش ہیں کیونکہ چیئرمین ایف بی آر علی ارشد حکیم نے بہت اچھے انداز میں مسائل کو سنا اور بعض تو فوری طور پر حل بھی کر دیئے۔ ایک اہم مسئلہ جس پر تمام تاجر اور بزنس تنظیمیں احتجاج کر رہی تھیں وہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ءکا سیکشن 153-A تھا جس میں 0.5 فیصد ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔ فوری طور پر اسے ایک سال کے لئے معطل کر دیا گیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بجٹ میں اسے ختم کر دیا جائے گا۔ واہگہ بارڈر پر پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت پورٹ قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز پر لاہور چیمبر آف کامرس غور کرے گا اور ممکن ہے کہ ایک مشترکہ کمپنی بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنا دیا جائے لیکن انڈیا سے ٹریڈ میں ہمیں اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر انڈیا سے بغیر قانون سازی اور منصوبہ کے تجارت کی گئی تو پاکستان کی بہت سی انڈسٹری بند ہو جائے گی۔ اس لئے باقاعدہ ٹریڈ شروع کرنے سے پہلے پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد کو پیش نظر رکھا جائے۔
علی ارشد حکیم نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اس وقت تین ملین ٹیکس دینے کی اہلیت رکھنے والوں کو ہم نے تلاش کر لیا ہے۔ اگر یہ تین ملین ٹیکس نادہندگان ایف بی آر کی تجویز کے مطابق چالیس چالیس ہزار ادا کر دیں تو اس میں ایک سو بیس ارب روپے کی آمدنی حاصل ہو گی۔ دوسری طرف ساڑھے تین ملین نے انکم ٹیکس نمبر حاصل کئے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے 0.8فیصد نے ریٹرنز بھری ہیں۔ اس سکیم سے وہ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ سال سے ترکی میں رائج سکیم بھی نافذ کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جس میں سیلز ٹیکس ادا کرنے والوں میں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے انعامات تقسیم کئے جائیں گے۔
دوسری نشست وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ تھی جس میں وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کالا باغ ڈیم فوری طور پر بنانے کا اعلان کر سکتی ہے اگر صوبوں میں اتفاق رائے قائم کر لیا جائے۔ یہ اعلان اس لئے بہت اچھا ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ کالاباغ ڈیم کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ مستقبل میں انڈیا کی پاکستان آنے والے پانی پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے شدید پانی کا بحران زراعت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ صرف کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے سالانہ ایک سو ارب روپے کا پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو سب سے پہلے تو خود صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کالا باغ ڈیم پر ایک قومی کانفرنس بلانی چاہیے تاکہ جو سیاستدان معلومات اور ویژن کی کمی ہونے کی وجہ سے سٹیٹ آف دی آرٹ ڈیم کے مخالف ہیں ان کی غلط فہمیاں ماہرین ختم کر سکیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر پاکستان کی معاشی اور آبی بقا کے لئے سپریم کورٹ کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہیے اور از خود نوٹس لے کر مخالفوں کو عدالت بلایا جائے اور حقائق کی روشنی میں انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کر دیا جائے کیونکہ کالا باغ ڈیم پاکستان کی معاشی اور آبی بقا کے لئے ناگزیر ہے اور اس پر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں۔
وزیر اعظم نے سارک ممالک میں بجلی کی کمی کی مثال دی، آخر وہ پاکستانی ہیں اسی پاکستان میں موجودہ حکومت کے آنے سے دو سال پہلے تک کسی قسم کی لوڈ شیڈنگ کا وجود نہیں تھا جبکہ اس وقت پاکستان کے کارخانے اور پیداواری یونٹس چوبیس گھنٹے چلتے تھے اور پیداوار کی شرح ساڑھے سات فیصد پر پہنچ چکی تھی جو اب بمشکل ساڑھے تین فیصد ہے۔ آخر یکایک وہ بجلی اور گیس کہاں غائب ہو گئی؟
لاہور چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ابوذر شاد نے ووٹ آف تھینکس پیش کرتے ہوئے شگوفہ چھوڑا کہ اگر تیس لاکھ ٹیکس نادہندگان کے خلاف بغیر سوچے سمجھے کارروائی کی گئی تو پھر حکومت ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کا انتظام بھی کرکے رکھے۔ ابوذر شاہ کی حکمت عملی سے صرف اس تقریب میں کھانے کی مد میں لاکھوں کے بچت کی گئی جبکہ وہ دوسرے اقدام کرکے پچاس لاکھ سے زیادہ اخراجات کی بچت کر چکا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن