سب کو آئینی حدود میں رکھنا عدلیہ کا کام ہے‘ کوئی ادارہ تنہا اچھی حکمرانی یقینی نہیں بنا سکتا : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ کوئی ادارہ کسی کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ فل کورٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس انتظامی امور سے متعلق ہے۔ گزشتہ سال جس رفتار سے مقدمات نمٹائے گئے وہ قابل اطمینان ہے۔ فل کورٹ اجلاس ایک معمول ہے۔ اجلاس میں مقدمات نمٹانے کی رفتار کا جائزہ لیا جائیگا۔ گزشتہ سال جس رفتار سے مقدمات نمٹائے گئے وہ قابل اطمینان ہے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی کیلئے متحرک انداز میں کام کررہی ہے۔ ججوں کی محنت سے ہم اچھے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ عدلیہ دیگر اداروں کیلئے رول ماڈل ہے۔ آئین عوام کو تحفظ فراہم کرتا ہے، کوئی ادارہ کسی کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی ادارہ تنہا اچھی طرز حکمرانی یقینی نہیں بنا سکتا۔ عدالت یہ بات یقینی بناتی ہے کہ کوئی ادارہ دوسرے ادارے کے کام میں مداخلت نہ کرے۔ سپریم کورٹ کو کسی بھی معاملے کا عدالتی جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے۔ عدلیہ انصاف کی فراہمی کیلئے متحرک انداز میں کام کررہی ہے۔ عدالت کا بنیادی فرض ہے کہ عوام کو انصاف ملے۔ دور دراز علاقوں سے انسانی حقوق کے بارے میں درخواستیں ملی ہیں۔ فل کورٹ اجلاس میں چیف جسٹس سمیت 14 جج صاحبان نے شرکت کی۔ جسٹس اطہر سعید بیماری کی وجہ سے فل کورٹ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ ملک سے باہر ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس شاکر اللہ جان کی ریٹائرمنٹ کے باعث نئی تقرری نہیں ہوئی لہذا باقی تمام ججز یہاں موجود ہیں۔ فل کورٹ اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس سمیت 14 ججز نے شرکت کی۔ اس سال سپریم کورٹ نے 12 ہزار 337 مقدمات نمٹائے۔ اتنی تعداد میں کیسز کو نمٹانا ججز کی محنت کا نتیجہ ہے۔ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں 6 وکلاءکو سینئر کا درجہ دینے کی منظوری دی گئی۔ فل کورٹ اجلاس میں یاسین آزاد، اختر حسین، مشتاق علی طاہر خیلی اور سید سمیع احمد کی بطور سینئر ایڈووکیٹ کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں طارق عزیز، احمد نواز چودھری، قاری عبدالرشید، رفاقت حسین شاہ، ایاز خان سواتی، سعد اللہ میاں اور سید طاہر کو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ بنانے کی منظوری دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق بین الاقوامی جوڈیشل کانفرنس اپریل 2013ءمیں کرانے کی منظوری دی گئی ہے۔ اے پی پی کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ تمام ادارے آئین کے تحت مقررہ حدود میں کام کرنے کے پابند ہیں سپریم کورٹ کو ان کے آئینی حدود میں کام کرنے پر نظررکھنے کا اختیار حاصل ہے‘ عدلیہ میں ججوں کی کمی دورکرنے کوششیں جاری ہیں‘ ہائیکورٹس بھی مقدمات تیزی سے نمٹارہی ہیں خصوصًا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے مقدمات کے علاوہ محروم طبقات کے مقدمات عدالتوں میںآرہے ہیں اوران پر تیزی سے فیصلے ہورہے ہیں جومقدمات کا بوجھ بڑھنے کے ساتھ عدلیہ پر اعتماد کا واضح اظہارہے۔ عدلیہ کوآئین کے تحت دوسرے اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے تاکہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت روکنے کے ساتھ ساتھ غیرقانونی اقدامات کاسدباب کیا جاسکے۔ نظرثانی کااختیارعدلیہ کے پاس ایک مقدس امانت ہے جس کو موثر انداز میں بروئے کار لانا چاہئے۔عوام کوعدلیہ سے بہت توقعات ہیں‘ہمیں اس پرپورا اترتے ہوئے دوسر وں کیلئے رول ماڈل بنناہے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ وہ عوامی مفادکوپیش نظر رکھے اور شفاف اندازمیں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے وزیراعظم کو درخواست کی گئی ہے کہ وہ ہرسطح پر ججوں کی کمی پوری کرنے کیلئے مناسب فنڈر جاری کر نے کے احکامات دیں۔سپریم کورٹ کے 14 ججز تین ماہ کیلئے چھوٹے بنچز میں تقسیم کردئیے گئے۔ ججز کو لاہور، پشاور، اسلام آباد کے بنچز میں تقسیم کیا جائے گا لاہور اور پشاور میں دو رکنی بنچ قائم کئے جائیںگے۔ اسلام آباد میں دو اور تین رکنی بنچ قائم ہوں گے۔ ترجمان کے مطابق بنچز بنانے سے کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔