سی این جی گاڑیوں میں اضافہ ہوتا رہا تو غریبوں کے چولہوں کو گیس نہیں ملے گی: مشیر پٹرولیم
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت نیوز/ ایجنسیاں) قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین نے کہا ہے کہ سی این جی گاڑیوں میں اضافہ ہوتا رہا تو غریبوں کے چولہے جلانے کیلئے گیس نہیں ملے گی۔ اوگرا کو وزارت پٹرولیم کے ماتحت کرنے کی قرارداد منظور ہو جائے تو یہ قوم کی خدمت ہوگی۔ ملک میں توانائی بحران کی ذمہ دار ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں سی این جی کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے تمام فریقین پر مشتمل کمیٹی بنانی چاہئے گیس بحران سے آنے والے دنوں میں بڑے مسائل ہونگے۔ اوگرا کو وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے ماتحت کرنے کی تجویز پر عمل ہونا چاہئے، بڑی بڑی گاڑیوں کو سی این جی کی فراہمی کی بجائے اسے پبلک ٹرانسپورٹ کو فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ غریب عوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں، گھریلو اور تجارتی و صنعتی مقاصد کیلئے الگ الگ گیس پائپ لائن بچھانے کی تجویز کی اوگرا نے ابھی تک منظوری نہیں دی۔ فروری 2008ءکے بعد سی این جی سٹیشن قائم کرنے پر پابندی ہے۔ مارچ 2013ء تک پاکستان کی تیل کی پیداوار ایک لاکھ بیرل تک پہنچ جائے گی۔ ایل پی جی پالیسی کی منظوری آئندہ ہفتے ہو جائے گی، جہاں گیس کی قلت ہو گی وہاں گیس فراہم کی جائے گی۔ 22 نومبر کو عدالت نے توہین عدالت پر بلایا ہے، اس کے بعد ہی اس بارے میں مزید بتاﺅں گا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے قوم جلد خوشخبری سنے گی۔ اوگرا کی طرف سے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے تعاون اور کارکردگی پر ہمیشہ تشویش رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں سی این جی سٹیشنوں کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا۔ جب سے قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ گیس بحران سے آنے والے دنوں میں بڑے مسائل ہونگے جبکہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے ایوان کی کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر حسین نے کہا کہ حکومت اب اقدامات کرنے کی باتیں کر رہی ہے یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ڈیڑھ کروڑ والی گاڑی کے اندر بھی گیس سلنڈر لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے استعمال پر پابندی ہونی چاہئے۔ ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ 20، 25 لاکھ کی گاڑی رکھنے والا بھی سی این جی استعمال کر رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 54 روزہ غیر آئینی اقدامات کی توثیق کے بارے میں رپورٹ پیش کردی گئی ایوان میں 3 مجالس قائمہ کی رپورٹیں بھی پیش کی گئیں۔ انجینئر خرم دستگیر نے تجارتی تنظیموں کی رجسٹریشن اور انضباط کے احکام وضع کرنے کے بل تجارتی تنظیموں کا بل 2007ء پر مجلس قائمہ کی رپورٹ پیش کی۔ وزیر مملکت برائے اقتصادی امور خواجہ شیراز کو رواں مالی سال کے دوران ٹیکس محصولات بارے توجہ دلاﺅ نوٹس پر ارکان اسمبلی کے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہ دینے پر مشکل میں پھنس گئے جس پر انہیں ارکان کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر نشین یاسمین رحمن نے وزیر مملکت کو ارکان کی تنقید سے بچانے کی کوشش کی تاہم متحدہ کے رکن عبدالرشید گوڈیل نے خواجہ شیراز کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ چیمبر میں جا کر معلومات حاصل کریں۔ وزیر مملکت خواجہ شیراز نے بتایا کہ رواں سال محصولات کا ہدف 2381 ارب روپے رکھا گیا ہے اس ہدف میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی جب ان سے پوچھا گیا گزشتہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران کتنے محصولات جمع کئے گئے تو وزیر مملکت نے فوری طور پر جواب دینے سے معذوری کا اظہار کیا۔ ارکان نے کہا کہ اگر ان کی تیاری مکمل نہ تھی تو وہ جواب دینے کی بجائے اس نوٹس کو موخر کرا دیتے۔ وزیر مملکت برائے پیداوار خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ سٹیٹ بنک اور حکومت روپے کی قدر کو مستحکم بنانے کیلئے اقدامات کی ذمہ دار ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کو ادائیگیوں میں کبھی تاخیر نہیں ہوتی وزیر مملکت برائے تعلیم و تربیت سردار شاہجہان نے کہا کہ محکمہ ڈاک کو کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے پنجاب کے شمالی ریجن میں 36 نئے ڈاکخانے قائم کئے گئے ہیں 1100 ڈاکخانوں میں صرف ایک ایک اہلکار تعینات ہے، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی میر چنگیز خان جمالی نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کسی قومی یا بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ اجازت کے بغیر قرضے لینے کیلئے مذاکرات نہیں کر سکتی۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 21 ہزار 407 غیر ملکی قیدیوں کو بھارت، افغانستان اور ایران کے حوالے کیا گیا ہے۔ تحریری جواب میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایوان کوبتایا کہ غیر ملکی باشندوں کو غیر ملکی افراد ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور اپنی نشست کی بجائے ایوان کی پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر ارکان کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے۔ وزیراعظم جب ایوان میں داخل ہوئے تو ارکان نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا اپنی آمد کے بعد وزیراعظم ایوان میں موجود حکومت اور اپوزیشن کے تمام ارکان کی نشستوں پر گئے اور ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی۔