ریکوڈک کیس‘ ثالثی عدالت کے فیصلے سے نقصان ہوا تو نتائج بلوچستان حکومت بھگتے گی: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ریکوڈک کیس میں ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے مقدمے کا ریکارڈ پیش کر دیا۔ عدالت نے ریکارڈ کے نقول تمام فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عالمی ثالثی عدالت نے حکومت بلوچستان کے خلاف فیصلہ دیا تو نتائج بلوچستان حکومت بھگتے گی۔ ریکو ڈک کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکن بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضا کاظم نے عدالت کو بتایا کہ یہ اہم نوعیت کا مقدمہ ہے۔ عالمی ثالثی فورم پر فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے۔ اگر فیصلے میں بلوچستان حکومت کو کسی نئی کمپنی کو لائسنس دینے سے روک دیا گیا تو پیچیدگیاں پیدا ہوگی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ہم غیرجانبدار ہیں۔ ایڈووکیٹ رضا کاظم نے کہا ریکوڈک کے معاملے میں حکومت کی جانب سے غفلت اور سستی کا مظاہرہ کیاگیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ اس وقت ٹیتھیان کمپنی کی حیثیت کا جائزہ لینا ہو گا۔ کیا وہ عالمی ثالثی میں جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیتھیان کمپنی نے شیئرز فروخت کر دئیے تھے۔ معاہدہ پر اپنا حق کیسے جتا سکتی ہے۔ ایڈووکیٹ رضا کاظم نے کہاکہ سپریم کورٹ نے دوبارہ ٹیتھیان کو نوٹس جاری کئے مگر اس نے یہاں آنے کی زحمت نہ کی۔ دفتر خارجہ نے کمپنی کو نوٹس پہنچائے تھے۔ آسٹریلوی حکومت نے اس معاملے میں پاکستان حکومت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت کو آسٹریلیا سے رابطہ نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ وہ اس میں فریق نہیں ہے نہ ہی ان ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہے۔ رضا کاظم نے کہاکہ حکومت پاکستان کو اپنی سپریم کورٹ سے رجوع حاصل کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان قانون کے مطابق یہ ساری سرمایہ سرکاری مشکوک ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مشکوک ہے۔ ہمارا اس سے واسطہ نہیں، کرپشن کے بارے میں ہمیں مطمئن کرنا ہو گا۔ رضا کاظم نے کہا کہ کیونکہ یہ داغ دار ہے اور اس میں کرپشن بھی کی گئی۔ ان کی سرمایہ کاری مشکوک ہے۔ اس معاملے کو حکومت کو پہلے ہی دن سے اس مقدمے میں عدالت میں لانا چاہئے تھا جیسا کہ ہم نے درخواست لے کرائے۔ اس مقدمے کو سننے کا بنیادی اختیار ہماری عدالتوں کا ہے۔ عالمی ثالثی میں بہت بڑی رقم ڈالروں میں ضائع کی جا رہی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے ان سے پوچھا کہ بی ایچ پی اور ٹی سی سی کی حیثیت کے بارے میں نہیں بتایا۔ رضا کاظم نے کہا اصل لائسنس بی ایچ پی کو دیا گیا جو آسٹریلوی کمپنی ہے لیکن امریکہ سے یہاں آئی۔ بعد ازاں اس نے یہ لائسنس ٹی سی سی کو بیچا لیکن یہ ایک ڈمی کمپنی تھی۔ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے مقدمے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا جیسے عدالت ریکارڈ کے نقول تمام فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت 19نومبر تک ملتوی کر دی۔ اے پی اے کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان خودمختار ملک ہے، یہ اپنے قانون کا دفاع کر سکتا ہے، ہمیں فیصلہ دینے میں جلدی نہیں۔ انہوں نے کیس کی قانونی حیثیت پر دلائل کی حمایت کی۔