دورہ آسٹریلیا..........قومی ہاکی ٹیم کا کڑا امتحان
چودھری محمد اشرف
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتھک محنت کی وجہ سے آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ محنت اور لگن کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب قومی ہاکی ٹیم اپنے کھوئے ہوئے تمام اعزازات اپنے نام کرنے میں کامیاب و کامران ہو گی۔ لندن اولمپک 2012ءمیں پاکستان ہاکی ٹیم اچھا کھیل پیش کرکے بھی ساتویں پوزیشن پر رہی لیکن نوجوان کھلاڑیوں نے سینئرز کی موجودگی میں جس طرح کا کھیل پیش کیا اس سے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل قریب میں نوجوان کھلاڑی سینئرز کی جگہ لے لیں گے۔ لندن اولمپک کےلئے پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سینئر کھلاڑیوں پر جس طرح اعتماد کیا تھا وہ اس طرح شائقین ہاکی کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے تھے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں جہاں دیگر اہم فیصلے کئے گئے وہیں پر سلیکشن کمیٹی کے کردار کو بھی ختم کر دیا گیا۔ سلیکشن کمیٹی کو ختم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد فیڈریشن نے ٹیم کا انتخاب کرنے کا تمام اختیار ٹیم مینجمنٹ کے کندھوں پر ڈال دیا ہے لہٰذا اب کسی بھی ٹورنامنٹ میں ٹیم کی جو بھی کارکردگی رہے گی اس کی تمام ذمہ دار براہ راست ٹیم مینجمنٹ ہی ہوا کرےگی۔ ماضی میں خراب کارکردگی پر سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ میں سے کسی ایک پر بھی ذمہ داری ڈالنا مشکل تھا۔ امید ہے کہ اب ٹیم مینجمنٹ اپنے اچھے اور برے نتائج کو کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے شائقین ہاکی سمیت قوم کو جواب دے ہوا کرے گی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے 2014ءکے عالمی کپ ٹورنامنٹ کو اپنا ہدف مقرر کر رکھا ہے جسے حاصل کرنے کےلئے فیڈریشن کو ابھی کئی اہم فیصلے مزید کرنا ہوں گے۔ لندن اولمپک کے بعد دورہ آسٹریلیا کی تیاری کےلئے جس طرح ممکنہ قومی سکواڈ کے تربیتی کیمپ میں 2 سینئر کھلاڑیوں سہیل عباس اور ریحان بٹ کو زیر غور نہیں لایا گیا ہے۔ مستقبل میں قومی ہاکی ٹیم پر بوجھ مزید ایک دو سینئر کھلاڑیوں کی بھی قسمت کا فیصلہ ہوجائےگا تاہم پاکستان ٹیم مینجمنٹ نے اتفاق رائے سے دورہ آسٹریلیا کےلئے 18 رکنی قومی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق فل بیک کھلاڑی محمد عمران پر ایک مرتبہ پھر اعتماد کیا گیا ہے جبکہ قیادت کی دوڑ میں انکا مقابلہ سابق کپتان وسیم احمد اور شکیل عباسی سے تھا۔ ٹیم کے کوچ حنیف خان جوکہ ہمیشہ اس بات کے حق میں رہے ہیں کہ ٹیم کی قیادت صرف اور صرف سینئر کھلاڑی کو ہی سونپی جائے لیکن اس مرتبہ انکی نظر شاید ٹیم کے سب سے سینئر کھلاڑی محمد وسیم پر نہیں پڑ سکی ہے۔ دوسری جانب گذشتہ دورہ آسٹریلیا میں قومی ہاکی ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دینے والے شکیل عباسی پر اس مرتبہ اعتماد نہیں کیا گیا ہے۔ دو سینئر کھلاڑیوں کو جس طرح ٹیم مینجمنٹ نے نظرانداز کیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا دیگر کھلاڑی دورہ آسٹریلیا میں اپنی پوری صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کریں گے ۔ دورہ آسٹریلیا میں قومی ہاکی ٹیم نے نائن اے سائیڈ انٹرنیشنل سیریز کے علاوہ 34ویں چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ بھی شرکت کرنی ہے۔ پاکستان ٹیم مینجمنٹ نے جس 18 رکنی سکواڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے مطابق محمد عمران (کپتان) وقاص شریف (نائب کپتان) جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں عمران بٹ‘ عمران شاہ‘ محمد عتیق‘ سید کاشف شاہ‘ وسیم احمد‘ محمد توثیق‘ فرید احمد‘ راشد محمود‘ محمد رضوان جونیئر‘ شفقت رسول محمد عمر بھٹہ‘ عبدالحسیم خان‘ شکیل عباسی‘ محمد کاشف علی‘ محمد رضوان سینئر اور علی شان شامل ہیں۔ جہاں لندن اولمپک سکواڈ کے دو سینئر کھلاڑیوں کو ڈراپ کیا وہیں پر جونیئر ٹیم کے دو کھلاڑیوں محمد عتیق اور محمد کاشف علی کو پہلی مرتبہ سینئر ٹیم کے سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کےلئے چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ روشن مستقبل بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے لہٰذا نوجوان کھلاڑیوں کو چاہئے کہ اپنا مستقبل روشن بنانے کےلئے پوری جان اور محنت کے ساتھ میدان میں نہ صرف اتریں بلکہ کامیابی بھی حاصل کریں۔ ٹیم کے اعلان کے وقت ہیڈ کوچ اختر رسول اور کوچ حنیف خان نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم کا انتخاب مینجمنٹ کی مکمل مشاورت اور میرٹ پر کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ مینجمنٹ جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سابق ورلڈ کلاس کھلاڑیوں پر مشتمل ہے کیا قومی ہاکی کو اصل ٹریک پر لانے میں کامیاب ہو سکے گی۔ اختر رسول اور حنیف خان اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی ٹیم کا کوئی ہدف نہیں ہے تاہم دونوں سابق سینئر کھلاڑیوں پرامید ہیں کہ پاکستان ہاکی ٹیم اچھے نتائج پیش کرےگی۔ اختر رسول کا کہنا تھا کہ دنیا کی بہترین آٹھ ٹیمیں ٹورنامنٹ میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔ ورلڈ میں پاکستان ٹیم کی ساتویں پوزیشن ہے کوشش ہو گی کہ اپنی رینکنگ کو بہتر کریں اور چوتھی پانچویں پوزیشن حاصل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہتری راتوں رات نہیں آئےگی، تھوڑا حوصلے اور صبر سے کام لینا ہو گا۔ کوچ حنیف خان کا کہنا تھا کہ تربیتی کیمپ میں کھلاڑیوں کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ دورہ آسٹریلیا میں کھلاڑی وہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ کھلاڑی محنت کریں تو دنیا کی کوئی ٹیم پاکستان کے مدمقابل نہیں آ سکتی۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارا کام تھا کھلاڑیوں کی بیسک پر کام کرکے اس میں بہتری لائیں۔ ہم نے نیک نیتی سے کام کیا ہے۔ انشاءاللہ ٹیم میں بہتری نظر آنا شروع ہوجائےگی۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے کپتان محمد عمرن کا کہنا تھا کہ فیڈریشن اور ٹیم مینجمنٹ نے مجھ پر جو بھروسہ کیا ہے میں اس پر پورا اترنے کی کی کوشش کروں گا۔ دورہ آسٹریلیا کے دونوں ٹورنامنٹس آسان نہیں ہیں۔ تمام کھلاڑی متحد ہیں کہ وہ اس ٹورنامنٹ میں اچھے سے اچھا کھیل پیش کریں۔ تربیتی کیمپ میں کھلاڑیوں کے درمیان اچھا تال میل قائم کرنے کےلئے ورک کیا گیا ہے جس کے نتائج ٹورنامنٹ میں نظر آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر ٹیم کی قیادت کا کوئی پریشر نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل بھی یہ فریضہ انجام دیتا رہا ہوں۔ ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے اعلان کردہ تمام کھلاڑیوں میں مطمئن ہوں ایک اچھا کمبی نیشن ہے۔ انشاءاللہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ قومی ہاکی ٹیم کے نائب کپتان وقاص شریف کا کہنا تھا کہ مجھ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بہتر کھیل پیش کروں اور اپنے ملک کا نام روشن کروں۔ پہلے بھی ایک دور ٹورنامنٹس میں ٹیم کا نائب کپتان مقرر کیا گیا تھا۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے کہ فیڈریشن نے مجھے نائب کپتان بنایا ہو۔ وقاص شریف نے کہا کہ میں مکمل فٹ اور بھرپور فارم میں ہوں تمام کھلاڑیوں کےساتھ ملکر اچھے نتائج دینے کی کوشش کروں گا۔
پاکستان ہاکی ٹیم 19 اور 20 نومبر کی درمیانی شب آسٹریلیا کےلئے روانہ ہو گی۔ قومی ٹیم پہلے پرتھ میں 22 سے 24 نومبر تک کھیلے جانےوالے نائن اے سائیڈ انٹرنیشنل پر سیریز میں حصہ لے گی، بعدازاں قومی ٹیم ملبورن روانہ ہو جائےگی جہاں یکم سے 9 دسمبر تک منعقد ہونےوالے 34ویں چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ کا حصہ بنے گی۔ قومی ٹیم 11 دسمبر کو وطن واپس پہنچے گی۔
....٭....٭....٭....