پاکستان دشمنی کو کاروبار بنانے والے بال ٹھاکرے چل بسے
ہٹلر کی نازی پارٹی اور میسولینی کی فاشسٹ پارٹی دونوں نے ہی حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس کے کارکن بھی شدت پسند تھے اور مخالف بھی۔ ایک چھوٹا سا واقعہ ملاحظہ کریں۔ میسولینی کو خبر ملی کہ ایک آدمی صبح سویرے سڑکوں پر فاشزم کے خلاف نعرے لگا کر غائب ہو جاتا ہے میسولینی کو غصہ چڑھ گیا۔ خفیہ پولیس کو حکم ہوا کہ اسے گرفتار کرکے سرسری کارروائی کے بعد اس کا سر گلوٹین سے کاٹ دیا جائے حکم ملنے کی دیر تھی۔ اینٹی فاشسٹ پکڑا گیا اور سرسری کارروائی کے بعد جب اسے گلوٹین کے تختے پر لٹایا جانے لگا تو اس سے روایت کے مطابق آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا۔ ”ہر کسی کو بتا دیا جائے کہ موت کو گلے لگانے سے پہلے ہی فاشسٹ ہو گیا تھا اور میں آپ کے سامنے بھی حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میں فاشسٹ ہوں“ ۔
اس بات پر اسے گلوٹین کے تختے سے نیچے اتار لیا گیا کہ قانونًا کسی فاشسٹ کو تو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی تھی جب اسے گلوٹین کے تختے سے نیچے اتارا تو وہ غصے میں آ گیا اور کہا کہ میں فاشسٹ ہونے کا اعلان کر چکا ہوں مجھے موت کی سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ اس پر سزا پر مامور چیف آفیسر نے کہا کہ سر! اب آپ کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ ہمارے ڈوچے (میسولینی) کا حکم ہے کہ فاشسٹ کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس پر وہ شخص بھڑک اٹھا اور چلا کر بولا، میں اس وجہ سے فاشسٹ نہیں ہوا کہ مجھے تمہارے نظریات پسند ہیں بلکہ میں تو صرف اس وجہ سے فاشسٹ ہوا تھا کہ مرنے کے بعد میری روح کو سکون مل سکے کہ دنیا سے ایک فاشسٹ تو کم ہوا ہے۔
بال ٹھاکرے کی ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا نے بھی نازی اور فاشسٹ پارٹی کے بہت سے اصول اپنائے۔ ان اصولوں کا اثر آپ دیکھ لیجئے کہ جب ہفتہ کو ڈاکٹروں نے میڈیا کے سامنے بال ٹھاکرے کے چل بسنے کا احوال بیان کیا تو ممبئی سمیت آس پاس کے شہروں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ کاروباری زندگی بری طرح متاثر ہوئی 86ءسالہ بال ٹھاکرے پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے کافی عرصے سے ہسپتال آ جا رہا تھا اور پھر ڈاکٹروں نے راز داری سے اس کے بیٹے کو بتا دیا کہ اس بیماری میں بچنے کی کوئی امید نہیں ہے اس لئے بہتر ہے کہ اپنے گھر کے ایک کمرے کو ہسپتال کے کمرے میں تبدیل کرا لو۔ چنانچہ گھر ہی میں ہسپتال کا ماحول پیدا کر دیا گیا گزشتہ ایک ہفتے سے شیوسینا کے تمام بڑے بڑے لیڈر بال ٹھاکرے کی تیمارداری کے بعد میڈیا کو ایک ہی بیان دیتے تھے کہ اب طبیعت بہتر ہے لیکن کسی کو بھی ان بیانات پر اعتماد نہیں تھا کیونکہ کبھی کسی ڈاکٹر نے اس نوعیت کا بیان نہیں دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے جب آخری دفعہ وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا تو تب ڈاکٹروں نے بتا دیا کہ اب وہ دو چار دن کے مہمان ہیں۔ یہی سبب ہے کہ امیتابھ بچن اپنے بیٹے ابھیشک بچن کے ساتھ جب اس کی تیمارداری کیلئے آئے تو شیوسینا کے کارکنوں نے ایک پرانی دشمنی کا بدلہ لینے کی کوشش کی جس میں امیتابھ کے بیٹے ابھیشک کا کرتہ بھی پھٹ گیا تھا۔
ممبئی پولیس نے آج دوپہر بال ٹھاکرے کی آخری رسومات ادا کرنے کے موقع پر ہدایت نامہ (ایڈوائزری) جاری کی ہے کہ شہری اپنے گھروں سے بلاوجہ باہر نہ نکلیں کاروبار زندگی نہ ہونے کے برابر ہوگا۔
بیس ہزار پولیس ملازمین اس موقع پر امن و امان قائم رکھنے میں مصروف ہوں گے۔ ویسے ممبئی پولیس نے تو گزشتہ ہفتے سے ہی پولیس کی تمام چھٹیاں منسوخ کرکے انہیں الرٹ کر دیا تھا۔
بال ٹھاکرے نے شروع میں ایک اخبار بھی نکالا تھا جو سرمائے کی کمی ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ 1966ءمیں شیوسینا پارٹی کی بنیاد رکھی لیکن بہت عرصہ تک اسے ممبئی کے انڈر ورلڈ اور سیاست میں کوئی نمایاں مقام نہیں ملا۔ تب اسے کسی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ شیوسینا کا یک نکاتی منشور غیر اعلانیہ طور پر پاکستان دشمنی قرار دے دیا جائے چنانچہ تب سے بال ٹھاکرے نے پاکستان دشمنی کو اپنا کاروبار بنا لیا اور واقعی اس کی وجہ سے اس کی پارٹی میں ایک طرف انتہا پسند ہندو اور دوسری طرف جرائم پیشہ افراد اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے دھونس، دھاندلی اور دھمکیوں سے بھتہ لینے والی ممبئی کی انڈر ورلڈ میں اپنا ایک مقام بنا لیا لیکن دوسرے بھتہ لینے والے گروہوں سے چپقلش چلتی رہی، خصوصاً فلم انڈسٹری اور بلڈر مافیا سے بھتہ لینے والے گروپ بہت طاقتور تھے، جب اس کے بیٹے نے جبراً ایک انڈین فلم کے پروڈیوسر ہونے کے حقوق حاصل کئے تو فلم انڈسٹری میں سرمایہ لگانے والوں نے اسے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں پار کر دیا۔ بال ٹھاکرے کی اپنے بھائی کے ساتھ بہت دوستی تھی لیکن جب اس کے بیٹے نے مفادات کے چکر میں اصل روپ دکھایا تو علیحدگی ہو گئی اور اس نے الگ سیاسی پارٹی (اور بھتہ گروپ) قائم کر لیا۔ اس وقت اس کے تمام امور اودھے ٹھاکرے چلا رہا تھا اور یقینی بات ہے کہ اودھے ٹھاکرے اب شیوسینا کا نیا سربراہ ہوگا۔ لیکن اب شائد وہ پاکستان دشمنی کو اپنانے کا کاروبار نہ بنائے کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور آج چتا میں جلنے والی ارتھی کی راکھ کے گنگا بُرد کرنے سے ایک باب ختم ہو گیا۔ راجکپور نے صحیح کہا تھا۔ رام تیری گنگا میلی ہو گئی پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے۔