• news

نقش و نگار دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف

حضرت علامہ اقبالؒ کی رائے میں ”ہے دل کے لئے موت مشینوں کی زندگی“ لیکن کیا کیا جائے کہ ہم اپنے دل بیمار کے ہاتھوں سیڑھی کی بجائے لفٹ (مشین) کے استعمال پرمجبور ہیں۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے تیسرے فلور سے نیچے آنے کےلئے ہم لفٹ میںسوار ہوئے، یہاں لفٹ بہت آہستگی سے چلتی ہے، بس آپ یوں سمجھ لیں کہ اتنی آہستہ جیسے ہماری سرکار لیکن ذرا ٹہریں ایک شوخ سا سوال ذہن میں بھاگا دوڑا چلا آ رہا ہے۔ کسی مدھم رفتار ہی سے سہی،کیا ہماری سرکاری مشینری حرکت میں ہے؟ اس سوال کا جواب، اب اس خونی انقلاب کی صورت ہی آئے گا جس کا اندیشہ میاں شہباز شریف کی ہر شاندار اور پر جوش تقریر میں موجود رہتا ہے۔ لفٹ کی سست رفتاری پر شعیب بن عزیز کو الجھن سی ہونے لگی۔ اس کے اظہار پر لفٹ آپریٹر انہیں بتانے لگا کہ یہ رفتار دل کے مریضوں کی وجہ سے رکھی گئی ہے۔ لفٹ مین کو تھوڑی سی لفٹ ملی تو وہ پھٹ پڑا ”صاحب جی! میں تباہ ہو گیا ہوں، ملک تباہ ہو گیا ہے، ہم سب تباہ ہو گئے ہیں۔ اب تو کچھ بھی نہیں رہا اور آپ کو لفٹ کی سست رفتاری کی پڑی ہوئی ہے“۔ جناب شعیب بن عزیز بولے ”بھئی تم زندہ ہو، میں زندہ ہوں، یہ علامہ صاحب ندہ ہیں۔ کیا ہم سب زندہ نہیں ہیں، کیا یہ سب کچھ نہیں؟“ اپنے کہے ہوئے شعروں کی بھی داد کے ناخواہاں شعیب بن عزیز یہ کہہ کر داد طلب نظروں سے لفٹ آپریٹر کی طرف دیکھنے لگے گو اس کی زبان چپ تھی لیکن اس کی آنکھوں میں بھلا چپ کہاں تھی۔ میں نے اپنے دل کے کانوں سے اسے شہزاد نیئر کا یہ شعر پڑھتے سنا، تو بس مزہ آ گیا....
زندہ ہونا کچھ اور ہوتا ہے
سانس لیتے ہیں سو لئے جائیں
اب اس کی آواز اونچی سنائی دینے لگی”سکون اور سالن اب ہمارے نصیبوں میں نہیں رہے سرکار روکھی سوکھی روٹی بھی پیٹ بھر کر کہاں ملتی ہے۔ گھر میں آٹے کا خاکی کنستر بولتا رہتا ہے۔ اب تو تنخواہ سے اپنے بچوں کا پیٹ بھر لیں یا اپنا۔ ٹرانسپورٹ بہت مہنگی ہو گئی ہے جی! اب تو رشتہ داروں سے نرا ملنا ملانا بھی عیاشی میں شمار ہے“۔ وہ تو اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن گراﺅنڈ فلورآن پہنچا۔ ہم جھٹ سے لفٹ سے باہر نکل آئے۔ اک ہمارے اور مہربان ہیں۔ شعر بھی اچھا نکالتے ہیں۔ کالم بھی اچھا لکھتے ہیں۔ اک دن فرمانے لگے: ”بھوک.... بھوک.... بھوک میں یہ لفظ سن سن کر تنگ آ چکا ہوں۔ مجھے کسی ایک شخص کا نام بتاﺅ جو رات کوبھوکا سوتا ہو کسی ایک آدمی کا پتہ بتاﺅ جس نے بھوک کے ہاتھوں خود کشی کی ہو۔ یہ بدہضمی، اپھارہ، تبخیر معدہ، کھٹے کھٹے ڈکار اور ٹھونس ٹھونس کر پیٹ بھرنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور امراض کا البتہ میں منکر نہیں۔ میری جان! غربت مسئلہ نہیںہے۔ ادھر پاکستان میںStatus ضرور ایک مسئلہ ہے۔ اب یہ ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگ گھر بدلنا چاہتے ہیں۔ گاڑی کا ماڈل بدلنا چاہتے ہیں۔ گاڑی کا برانڈ بدلنا چاہتے ہیں“۔ اس کی زبان پر تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے.... والی آیت ربانی ابھی آئی تھی کہ میں نے ان کی گفتگو روکنے کےلئے ایک سوال داغ دیا۔ ایسے بدہضمی اور اپھارے والے لوگ بھلا پاکستان میں کتنے فیصد ہو نگے؟وہ ایسے خوش قسمت لوگوں کی تعداد اسی فیصد سے ہرگز کم ماننے پر تیار نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنی ”جاندار“ گفتگو میں یہ دلیل ڈال کر اسے کچھ اور جاندار بنا ڈالا کہ یہ بقایا بیس فیصد لوگ بھی پاکستانی معاشرے کی بقا کےلئے بہت ضروری ہیں۔ آخر ہمیں چوکیدار، ڈرائیور، باورچی پھر بچوں کو سنبھالنے، پالنے اور ہاں رات کو شیر خوار بچوں کو اپنے ساتھ سلانے کےلئے کم عمر لڑکیاں بھی تو بہت ضروری ہیں۔ ان سب کے بغیر بھلا ہمارا گھریلو نظام کیسے چل سکتا ہے۔ اس کی گفتگو میں کھیت اور فیکٹری مزدور کا ذکر نہیں تھا۔ میں نے اک بہانہ لگا کر اس گفتگو کا اختتام کر دیا۔ اب میں وہ خوبصورت سا بہانہ بھول چکا ہوں۔ اب اسے یاد کر کے لکھنے میں کوئی خاص فائدہ بھی نہیں۔ اب اک اور امیر زادے کا ذکر کرتے ہیں۔ سکول کی کسی ابتدائی کلاس کا یہ بچہ بھی میرے پچھلے مہربان کے کہیں اڑوس پڑوس میں ہی کسی اچھے اور بڑے گھر میں رہتا ہوگا۔ اسے ایک روز سکول سے ہوم ورک کے طور پر ایک غریب بچے پر مضمون لکھنے کا کام ملا وہ اپنے گھر سے ایک شاندار مضمون لکھ کر لایا اس نے لکھا کہ ہمارے پڑوس میں ایک غریب آدمی رہتا ہے۔ اس بیچارے کے گھر میں صرف ایک گاڑی، ایک چوکیدار، ایک ڈرائیور، ایک باورچی اور صرف ایک بیرا ہے۔ اس نے لکھا کہ وہ سارے بیچارے دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہیں ارو ایک وقت کا فاقہ کرتے ہیں میں نے یہ فیصلہ نہ کر سکنے پر کہ یہ مضمون پڑھ کر رویا جائے یا ہنسا جائے، اس مضمون کو ادھورا چھوڑ دیا۔ اب میرا کالم میری طرح ہی بے راہ روی کا شکار، ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ اس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے ہانک کر اختتام کی طرف لئے چلتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے 28 مئی 1937ءکو حضرت قائداعظمؒ کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس خط میں سے جستہ جستہ آپ کو سناتا ہوں۔ ”روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جا رہا ہے۔ مسلمان یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ پچھلے دو سو برسوں میں ان کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ ایک عام مسلمان کا یہ خیال ہے کہ اس کی غربت کی ساری ذمہ داری ہندو مہاجن اور سرمایہ دار پر ہے۔ ابھی اس تصور میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں نہیں ہوا کہ اس صورتحال کی ذمہ داری مساوی طور پر غیر ملکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن یہ تاثر لازمی طور پر ابھرے گا.... اب اصل سوال ہے، مسلمانوں کے افلاس کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے؟ مسلم لیگ کے مستقبل کا تمام تر انحصار اس مسئلے کو حل کرنے میں، اس کی دلچسپی اور سرگرمی کے اظہار پر ہے“ خط خاصا لمبا ہے۔ جنہیں اور پڑھنا مقصود ہو وہ ”لیٹر آف اقبال ٹو جناح“ نامی کتاب میں پڑھ لیں۔ اب اصل مسئلہ یوں ہے کہ آج کے پاکستانی مسلمانوں کی غربت کے ذمہ دار مسلمان سود خور مہاجن ،سرمایہ دار اور جاگیردار ہی ہیں، پھر حکومت بھی ہماری اپنی ، بے شک ہمارے حکمرانوں میں سے بہتوں کی شہریت دوہری سہی چلو وہ ایک پاکستانی شہریت بھی تو رکھتے ہیں۔ اگر حضرت علامہ اقبالؒ آج خط لکھتے تو وہ پاکستان کے مسلمانوں کے نام خط لکھنا بھی نہ بھولتے۔ اس خط میں یہ سیدھی کھری بات ضرور لکھتے ”او! غافل مسلمان! اپنی خودی پہچان، ووٹ کا درست استعمال کر، برادری، فرقہ اور سیاست کے لات و منات کی پوجا چھوڑ دے“....
عشقِ بتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف

ای پیپر-دی نیشن