ریکارڈ توڑ حکومت
2005ءمیں قرضوں کو حد میں رکھنے کےلئے (Fiscal Responsibility dabt limiteation Act) FRDL Act کے نام سے قانون بنایا گیا جس کے تحت 30 جون 2008ءتک حکومتی خسارہ صفر ہونا چاہئے اور سوشل سیکٹر، غربت، تعلیم اور صحت کے لئے رقوم میں خطیر اضافہ کیا جانا تھا اس ایکٹ کے تحت حکومت کو پابند ٹھہرایا گیا کہ جون 2013ءتک حکومتی قرضہ GDP کے 60 فیصد سے کسی طور بھی تجاوز نہیں کرنا چاہئے لیکن موجودہ حکومت نے تو FRDL ایکٹ کی دھجیاں اڑا دیں جون 2012ءتک ملک 12661 ارب روپے کا مقروض تھا جو GDP کا 61.3 فیصد ہے ملکی قرضہ 7636 ارب تھا جو GDP کا 37 فیصد ہے موجودہ حکومت نے قرضوں کو چار سال میں دوگنا کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ قرضے 2008ءمیں 6044 ارب سے بڑھ کر 12661 ارب ہو گئے۔ 30 جون 2013ءتک بہت کچھ سامنے آئے گا۔
گذشتہ دو سال سے حکومت کی زر کی پالیسی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ بنکوں کا 85 فیصد کریڈٹ حکومت اڑا کر لے گئی۔ بنکوں کے 15 فیصد کریڈٹ سے پرائیویٹ سیکٹر کی وساطت سے اکنامک گروتھ کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں نے صارفین کو ممکنہ حد تک عاجز کر رکھا ہے۔ اس پر فلور مل مالکان نے 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں مزید 20 روپے اضافہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس ملک کے ہر زمیندار کارخانہ دار مل مالک کے لئے فری ہینڈ ہے گھی چینی والوں صابن کی جب چاہیں قیمت بڑھا لیں کیا دودھ دہی گوشت سبزی پھل کی قیمتیں کسی اتھارٹی سے اجازت لے کر بڑھائی جاتی ہیں۔ اوگرا کے فیصلے تو عوام پر مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔ مذکورہ اشیائے صارفین کے لئے بھی تو کوئی اوگرا ہونی چاہئے۔ کیا کوئی امرود ایک سو روپے کلو بیچنے والے سے پوچھ سکتا ہے کہ وہ اتنی قیمت پر امرود کیوں بیچ رہا ہے کیا کسی مچھلی فروش سے پوچھا گیا ہے کہ مچھلی آٹھ سو روپے کلو تک کس کی اجازت سے بیچی جا رہی ہے۔ ہزاروں روپے فیس لینے والے پرائیویٹ سکول کس کی اجازت سے اتنی فیسیں لے رہے ہیں۔ مہنگائی ایک سمندر ہے جس میں سب نہا رہے ہیں امیروں کا منافع بڑھتا جا رہا ہے اور وہ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں غریبوں کا جہاں داﺅ چلتا ہے وہ بھی کم نہیں کرتے۔ انتخابات سے قبل سرکاری محکموں میں سیاسی بھرتیوں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم گیلانی نے 2012-13ءکے بجٹ میں بے روزگاروں کے لئے ایک لاکھ اسامیوں کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کو ایسی وفادار بیوروکریسی چاہئے جو اس کے سیاسی مفادات کی نگہبانی کرے جبکہ سپریم کورٹ سرکاری ملازمین سے بار بار کہہ رہی ہے کہ وہ حکمرانوں کے غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات ماننے کے پابند نہیں۔ سیکرٹری فنانس واجد رانا کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ اس وقت سیاسی ایشوز اور اکنامک ایشوز میں بہت فرق ہے۔ لاہور راولپنڈی سیالکوٹ گوجرانوالہ سرگودھا اور ملتان میں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ ق لیگ کی خواہش ہے کہ پنجاب میں انتخابات جلد ہوں جبکہ ن لیگ کی خواہش ہے کہ انتخابات سے پہلے بڑے ترقیاتی منصوبے ضرور مکمل ہونے جاہئیں۔ امریکہ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف انتخابی نتائج کے بعد ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالتے صدر اوباما انتخابات میں اپنے مدمقابل رومنی کو وزیر خزانہ بنانے جا رہے ہیں کیا ہمارے ہاں کبھی ایسا ہوا ہے یا ایسا ہو سکتا ہے۔ امریکیوں کو صرف امریکہ کا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ ہم مقروض ترین ملک ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کا اکنامک ایشوز نہ ہی سیاسی ایشوز پر اتفاق رائے ہے ملکی دولت لوٹ کر دولت کے انبار لگانے والے سیاستدانوں ججوں فوجیوں سرمایہ داروں بنکوں کے قرض ہڑپ کر جانے والے نادہندگانوں بجلی اور ٹیکس چوری زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے والوں سب کا احتساب ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ NAB میں یہ دم خم ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر سکے۔ آڈیٹر آڈٹ رپورٹیں مرتب کرتے ہیں۔ انکوائری کمشن انکوائری رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ کیا ان رپورٹوں کی روشنی میں کسی کا احتساب ہوا۔ قانون پر چھوٹا موٹا عملدرآمد اس شکل میں ہر روز ہوتا ہے کہ ٹریفک وارڈن قصوروار اور بے قصور دونوں کا چالان کرتے اور اپنے باس پر کارکردگی ظاہر کرتے ہیں۔ ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے پر چند ریڑھی والوں کو حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ادویات غذائی اشیا میں ملاوٹ کرنے والوں کم تولنے والوں دودھ میں رات دن پانی ملانے والوں، گوشت کا پانی سے وزن بڑھانے والوں سے زیادہ تر پیسے لے کر اغماض برتا جاتا ہے۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے دفاتر میں کھلے عام رشوت سے کون آگاہ نہیں۔ ہم من حیث القوم یہ طے کر چکے ہیں کہ رشوت کے بل پر کام کریں گے اور کام کروائیں گے۔ ملازمتوں کے امتحانات میں کامیاب نہیں بلکہ پوزیشن ہولڈروں کو بھی پبلک سروس کمشن کے انٹرویوز میں نااہل سمجھا جاتا ہے۔ سرکاری محکموں میں اسامیاں تو محکمے کے بااختیار افسروں کے لئے پرائز بانڈ سے کم نہیں ہوتیں۔ نوازشات اور رشوت کا باب کھلتا ہے۔ کالجوں میں سیلف فنانسنگ کے نام پر داخلہ بھی دراصل رشوت کی آراستہ شکل ہے۔ پیسہ لے کر نااہل کو اہل قرار دینا یہ انصاف کی کون سی شکل ہے۔ سرکاری کالجوں میں ایم اے ایم ایس سی اور ایم فل بچے بچیاں محض دس دس ہزار ماہانہ اجرت پر انٹرنی بھرتی کئے جاتے ہیں۔ یہی لوگ پبلک سروس کمشن سے سلیکٹ ہو کر آئیں تو گریڈ 17 کے افسر اور لیکچرار کہلاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ہر ضلع کی سطح پر پڑھے لکھے نوجوانوں کا Data مرتب کرانا چاہئے تاکہ ان کے علم سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ انہیں ان کی اہلیت کے مطابق ملازمتیں اور قرضے دئیے جا سکیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ”وسیلہ تعلیم“ کو پورے ملک میں پھیلا دیا جائے۔(ختم شد)