• news

تاریخ بدل رہی ہے

”50 رےاستوں“ پر مشتمل رےاستہائے متحدہ امرےکہ کی 20 رےاستوں نے امرےکہ سے علےحدگی کا مطالبہ کر دےا۔ امرےکی قانون کے مطابق حکومتی پالےسی سے متاثرہ ناراض گروپس جب چاہے9 اپنے لےے الگ رےاست قائم کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہےں۔ 20 رےاستوں کے ہزاروں افراد نے اپنے اس حق کو استعمال کےا ہے۔ 6 نومبر کو ”باراک اوبامہ“ صدر منتخب ہوئے۔7 نومبر کو رےاست ”لوزےانا“ کی طرف سے ”وائٹ ہاﺅس“ کی وےب سائٹ پر پٹےشن دائر کی گئی۔جس کے مطابق رےاست کی ترقی و خوشحالی کے لےے حکومتی پالےسی موزوں نہےں ہےں۔ ”لوزےانا“ کی اپےل پر 13 ہزار اور ٹےکساس کی درخواست پر 16 ہزار افراد دستخط کر چکے ہےں۔
7 دسمبر 2012ءتک اگر ہر رےاست کے 25 ہزار باشندوں نے پٹےشن پر دستخط کر دئےے۔ ( جو ہو جا ئےنگے) تو ”اوبامہ“ اس پر غور کرنے کے پابند ہو نگے۔درخواستِ آزادی کی وجوہات مےں ملکی و غےر ملکی اخراجاتی پالےسی مےں غفلت ۔امرےکی اقتصادی بدحالی۔ اورامرےکی شہرےوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہےں۔ ”امرےکی اعلان آزادی“ 1776 ءمےں رےاستوں کو مرکزی سےاسی بندوبست سے علےحدہ ہونے کا حق دےا گےا ہے۔۔ دوسری طرف سی آئی اے کے چےف ”پےڑےاس “ کے بعد امرےکی جنرل اےلن کے سےکنڈل نے واشنگٹن کو ہلا کر رکھ دےا ہے۔ سکےنڈل سچا ہے ۔جھوٹا۔حقےقت ےہ ہے کہ سےکنڈل ”صدر اوبامہ“ کو ےہودی جھٹکا ہے۔ ”اوبامہ“ کو راہ راست پر رکھنے کے لےے ےہ پہلی سلامی ہے تاکہ نےا صدر زےادہ امن کی خواہش مےں حقےقتاً دنےا کو اتنا اپنا پرا من نہ بنا دے کہ ےہودی منصوبے ناکام ہو جائےں۔ ”امرےکی زوال“ پر مےرے کالم (مطبوعہ نوائے وقت ) ”24 جون 2006“۔ ”16 اکتوبر 2008“ ۔۔ ےکم جنوری 2009“ ملا حظہ کےے جا سکتے ہےں۔ےہ امر جہاں زےادہ دلچسپ ہے وہاں پر اسرار بھی ہے کہ بلند کو ہسار ۔”خودی‘ اور ’ خوداری‘ ےکجان ہےں۔ دےکھنے مےں۔ سننے مےں۔ درجہ بندی مےں اور ان بلند قامت چےزوں سے جو بھی ٹکراےا۔ پاش پاش ہو گےا۔پہلی مثال ”حضرت قائد اعظم “ اےک خود دار انسان ۔کردار مےں بلند قامت لےڈر جن کے آگے انگرےز + ہندو ہار گےا۔ دوسری مثال ۔انگرےزوں کی غےور ۔بہادر افغانوں کے ہاتھوں عبرتناک شکست ۔تےسری مثال امرےکہ کی کورےائی شکست ۔چوتھی مثال ”امرےکہ“ کی افغانستان سے 2014 ءمےں پسپائی۔اربوں ڈالرز جنگ مےں جھونک دئےے۔ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دےا۔۔ اپنے سےنکڑوں فوجی مروا دئےے مگر بلند کو ہساروں کی سر زمےن فتح کر سکا اور نہ ہی کوہ قامت افغانوں کی خودی کو خرےد سکا۔ قانون قدرت سے جو بھی ٹکرےا پاش پاش ہوا۔ بلند ۔ چاہے سرو قامت پہاڑ ہوں ےا انسانی گروہ ۔ان سے ٹکرانے کا انجام حملہ آور فوج ےا حکومت کی توڑ پھوڑ کی صورت مےں برآمد ہوتا ہے ۔ اےک جہاز ”ٹاور“ سے ٹکراےا۔جہاز تباہ ہو گےا اور ”ٹوئن ٹاور“ راکھ کا ڈھےر بن گےا۔دونوں تباہ ہو گئے کےونکہ انسانی ہاتھوں کے تراشےدہ جو تھے۔پہاڑ کو بارود سے تو اُڑاےا جا سکتا ہے مگر ٹکر مارنے سے کر اپنا ہی سرپھٹنے کا امکان 100% ےقےنی ہے۔ ” قدرت“ کے بنائے ہوئے قوانےن کی ”انسان “ خلاف ورزی تو کر سکتا ہے۔۔ مگر بدل نہےں سکتا۔اﷲ تعالیٰ نے ہر قوم ۔سر زمےن کی الگ سے شناخت رکھی۔مگر بطور ” سپرےم کمانڈر“ جہاں زندگی ۔موت اوررزق کے معاملات اپنے ہاتھ مےں رکھے وہاںہر انسان کو اپنی زندگی خود جےنے کا قرےنہ بھی سکھا دےا۔ ” جےو اورجےنے دو“ قارئےن آپ نے دےکھا جس قوم نے ےا جس فرد نے بھی کسی دوسرے کے معاملہ مےں دخل اندازی کی ۔” قوانےن ِ قدرت“ بدلنے کی سعی ۔کی وہ زےرو ہو گےا۔کےونکہ اور حقےقی ”سپرےم پاور صرف اﷲ تعالیٰ“ کی ذات مبارکہ ہی ہے۔ کسی ملک کے ٹوٹنے ےا زوال کی خوش کسی بھی صحےح العقےدہ شخص کو نہےں ہو سکتی مگر 20 رےاستوں کے اعلان آزادی کی پٹےشن نے ثابت کر دےا کہ زمےنی حالات چاہے کچھ بھی منظر نامہ رکھتے ہوں۔ طاقت کے مراکز بدل جاےا کرتے ہےں۔ تصوےر چاہے کتنی ہی واضح ۔روشن۔دلکش کےوں نہ ہو اےک دن دھندلی پڑ جاتی ہے۔ کےونکہ حقےقی پاور کا اصل مرکز ”اﷲ تعالیٰ“ ہےں۔ بقےہ زمےنی جھوٹ ہےں۔ہر فرد ۔قوم کا دکھ ۔خوشحالی ۔طاقت کا اےک وقت ہوتا ہے۔ معےنہ وقت کے بعد رخصتی کا بگل بچ جاتا ہے۔ سو تارےخ بدل رہی ہے۔
پاکستان زندہ باد

ای پیپر-دی نیشن