سی این جی کی قیمت 5 دسمبر تک برقرار‘ لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے نہ پڑنے دینا سپریم کورٹ کا کام ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + این این آئی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ لوگوں کی جیبوں پرڈاکے نہ پڑنے دے۔ تمام فریقین مشاورت سے سی این جی کی مناسب قیمت کا تعین کریں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سی این جی کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں سی این جی کی قیمت سپریم کورٹ نے متعین کی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں سپریم کورٹ کا کام قیمتیں مقرر کرنا رہ گیا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ کام ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے ناجائز رقم نہ نکلنے دے۔ ڈاکے پڑیں‘ پولیس گرفتار نہ کرے لوگ پھر بھی کہیں گے کہ ہم مداخلت نہ کریں۔ اوگرا نے سپریم کورٹ میں سی این جی سے متعلق فرانزک آڈٹ رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کام میں آئین و قانون کی پابندی کرنا ہو گی۔ جوکچھ ہوتا ہے ہونے دیں۔ اکرام چودھری نے کہا کہ سی این جی سٹیشن مالکان قواعد پر عمل درآمد اور سالانہ معائنے کے پابند ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سی این جی قیمت کے تعین کا فارمولا کیا ہے۔ حکومت کی اپنی پالیسی ہونی چاہئے۔ وکیل اوگرا سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پہلے ایم او یو کے تحت قیمتیں مقرر کی جاتی تھیں۔ ایم او یو اب واپس ہو چکا اب کوئی پالیسی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوگرا سی این جی مالکان کو کرایہ بلوں کی ادائیگی‘ دیگر اخراجات دیتا ہے۔ ایسا ہی ہے تو پھر اوگرا خود ہی کاروبار کیوں نہیں کر لیتا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ آپریٹنگ کاسٹ کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی۔ لگتا ہے سارے سی این جی سٹیشن اوگرا کے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے لئے پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی چیک نہیں‘ ایم او یو منسوخ ہو چکا‘ پارلیمنٹ نے اجازت دی پالیسی موجود ہے۔ پھر قیمتیں بڑھانے کی کیا منطق ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ کسی کاروبار کے لئے اتنی مراعات نہیں جتنی سی این جی کے لئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قیمتوں کے تعین کے لئے پالیسی کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل نے کہا کہ پالیسی ہونی چاہئے مگر افسوس کہ اب تک معاملات ایڈہاک پر چل رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کیا آئین کے تحت ان تمام چیزوں کو دیکھنا عدالت کا کام ہے یا نہیں۔ وکیل اوگرا سلمان اکرم راجا نے جواب دیا بالکل یہ عدالت کا کام ہے اوگرا عدالت کی شکر گزار ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ جائیں اور حکومت سے کہیں پالیسی بنائیں۔ تمام غیر قانونی سی این جی سٹیشنز ختم کر دیں۔ وکیل مالکان عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ انتظامیہ سی این جی سٹیشن والوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو کاروبار نہیں چلانا چاہتے نہ چلائیں‘ لائسنس منسوخ ہو جائے گا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ لائسنس منسوخ کر دیں لیکن مالکان کو ہراساں نہ کیا جائے۔ وکیل اوگرا نے کہا کہ سی این جی قیمت پر نظرثانی کی جائے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا یہ ہمارا کام نہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ 2 ہفتوں میں سی این جی قیمتوں کی پالیسی لائیں یا قانون سازی کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت پالیسی دے‘ قیمتیں چاہے دوگنی کر دے۔ پہلے یہ پالیسی تھی کہ اتنے فاصلے پر پمپ لگے گا‘ اب آمنے سامنے پمپ ہیں۔ آپ ہمیں یہ بھی بتائیں کہ این ایچ اے کی زمین پر کتنے پمپ لگائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملک آپ کا اپنا ہے۔ اس کے ساتھ ایسا نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ مناسب قیمتیں متعین کرے اور چھت پر سفر کرنے والوں کو دیکھے۔ آئندہ سماعت تک سی این جی کی فروخت اسی قیمت پر کی جائے۔ اس دوران سی این جی کی مناسب قیمت کا تعین کیا جائے۔ ایک پمپ سے گیس ڈلوائیں تو گاڑی 100 کلومیٹر چلتی ہے دوسرے سے 75 کلو میٹر ایسا کیوں؟ جسٹس گلزار نے کہا کہ آج منگل کو آکر بتائیں کہ سی این جی سٹیشنز کس کی زمین پر لگائے گئے ہیں۔ مکان توڑ کر سی این جی سٹیشنز بنائے گئے جو انتہائی خطرناک ہے۔ کل ہی اےک بس کا سلنڈر کراچی میں گیس سٹیشن پر پھٹا۔ چیف جسٹس نے کہا تمام سٹیک ہولڈرز باہمی مشاورت سے سی این جی کی مناسب قیمت کا تعین کریں۔ سی این جی کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ سی این جی کی قیمتیں ہم نے نہیں اوگرا نے متعین کی ہیں۔ وکیل اوگرا سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پجارو اور مرسڈیز میں سی این جی چل رہی ہے لیکن غریب کا چولہا جلانے کے لئے گیس نہیں۔ عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ سی این جی جلائی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قیمتوں کا فارمولا تیار کرتے وقت صارفین کے حق کا تحفظ کیا جائے۔ سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔ اس وقت تک یہ قیمت برقرار رہے گی۔ دریں اثنااوگرا نے پٹرولیم اور گیس قیمتوں میں اضافے کیخلاف کیس میں سی این جی قیمتوں کا نیا فارمولا سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے جس میں ریجن ون میں سی این جی کی قیمت 74 روپے 16 پیسے اور ریجن ٹو میں 65 روپے 72 پیسے فی کلو مقرر کرنے کی تجویز دی گئی۔ گیس کی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم جنوری سے کرنے کی تجویز دی گئی اوگرا نے آڈٹ کمپنی کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس کا فارمولا مسترد کر دیا جس میں گیس کی قیمت 83 روپے 74 پیسے فی کلو مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین اوگرا سعید احمد کا کہنا تھا کہ آڈٹ کمپنی نے ساڑھے تین سو کی بجائے صرف دس سی این جی کمپنیوں کا آڈٹ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سی این جی سٹیشن مالکان 95 روپے میں گیس فروخت کرنا چاہتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ سی این جی کی کسی بھی صورت زیادہ سے زیادہ قیمت 74روپے ہونی چاہیے۔ آڈٹ رپورٹ میں اسکی قیمت 84روپے رکھی گئی ہے۔اسلام آباد سے خبرنگار کے مطابق اوگرا نے پرائےوےٹ کمپنی کی طرف سے تےار کی جانے والی فرانزک رپورٹ پر عدم اطمےنان کا اظہارکرتے ہوئے سپرےم کورٹ مےں اوگرا کی انٹرنل ٹےکنےکل کمےٹی کی تےار کردہ رپورٹ پےش کی۔ فرانزک رپورٹ مےں کمپنی نے سی اےن جی کی قےمت رےجن ون مےں 74روپے جبکہ رےجن ٹو مےں 83روپے فی کلوگرام تجوےز کی تھی۔ سپرےم کورٹ مےں پےش ہونے سے قبل مےڈےا سے گفتگوکرتے ہوئے چےئرمےن اوگرا سعےد احمد خان نے کہا کہ وہ پرائےوےٹ کمپنی کی رپورٹ سے متفق نہےں۔ فرانزک کمپنی نے صرف 10سٹےشنوں کا آڈٹ کرکے قےمت کا تعےن کےا جبکہ کم از کم 10فےصد سی اےن جی سٹےشنوں کا ڈےٹا جمع کرکے آڈٹ ہونا چاہئے تھا۔ اس سے کم از کم 350سی اےن جی سٹےشنوں کا ڈےٹا رپورٹ مےں شامل ہوتا۔