موبائل فون کے ہماری زندگی پر اثرات و مضمرات
روزِ اول سے ہی انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں ہے اور جدیدیت کے اس جنون نے انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے اور زیادہ بڑھا دیئے ہیں۔ ایک دور تھا کہ جب جنگیں بھی ہاتھوں سے لڑی جاتی تھیں پھر ہاتھوں میں تیر کمان اور تلواریں آ گئیں اور آج انسان نے انسان کو تباہ کرنے کے لیے نیوکلیئر ہتھیار تک بنا لیے ہیں اور اب جنگیں جو ہوں گی وہ بس ایک بٹن دبانے کی محتاج ہوں گی۔ زمانہ¿ قدیم میں جب انسان کرئہ ارض پرپھیلتا چلا گیا تو اسے آپس میں رابطہ کے لیے ضرورت محسوس ہوئی تو خط کافی دیر تک اور آج بھی انسان کے لیے پیام رسانی کا ذریعہ بنا۔آج سے 3عشرے پہلے جب میں گھر سے یورپ کے لیے نکلا اور بعد میں میری ماں نے مجھے بتایا کہ وہ ہر روز ڈاکیے کی راہ دیکھتی تھی کہ شاید وہ آج میرے بیٹے کا خط لے کر آئے گا۔ پہلے زمانوں میں خط کے ذریعے پیغام پہنچانے کا عمل اور بھی مشکل تھا اور کبوتر کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ عید، سالگرہ اور نیوایئر پر کارڈز لکھنے کا ایسا رواج تھا کہ کارڈبنانے والا شعبہ ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ دوکانوں پر جا بجا رنگ برنگے کارڈ آویزاں کیے جاتے تھے۔ اس کی جگہ ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس نے لے لی ہے۔
اوائل 90ءکی دہائی تک موبائل فون ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں پجارو گروپ کے بعد موبائل گروپ کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور یہ خبر اخبارات کی سرخی کے لیے اہم ہوتی تھی کہ فلاں سیاست دان یا امیر آدمی کے پاس دو دو موبائل سیٹ ہیں۔ موبائل فون سے متعلق بزنس اور اس کی طلب اتنی بڑھی کہ بہت جلد ہی پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ایک انڈسٹری اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کا سبب بن گیا۔ اسی دوران کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ پہلے پہل ہم کمپیوٹر کی ایک جہازی سائز مشین ایئر پورٹ پر دیکھا کرتے تھے جب کہ آج یہ پاکٹ سائز صورت اختیار کر چکا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے پہلی بار ایک مشاورت کے سلسلے میں ملا تو بی بی نے مجھ سے پہلا سوال یہ کیا کہ مطلوب تم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہو؟
کیا تمہارا ای میل اکاﺅنٹ بنا ہوا ہے؟ اور تب سے ہم بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ ایک وقت آیا کہ ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی ترقی کا راز یہ بتایا کہ اس وقت پاکستان میں 4کروڑ سیلولر فون سیٹ موجود ہیں اور انہی ایام کی بات ہے جب غیر ممالک کی ٹیلی کام کمپنیوں نے وطن عزیز میں اودھم مچا دیا ۔ موبائل فون کے بے جا استعمال نے نہ صرف ایلیٹ اور مڈل کلاس بلکہ غریب طبقہ اور جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے پاس بھی متعدد موبائل سیٹ اور کئی کئی سمیں موجود ہیں۔ لوٹ مار کی اس دوڑ میں موبائل کمپنیوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پیکیجز متعارف کروائے کہ عام انسان روٹی کی بجائے موبائل سیٹ کو زیادہ تصور کرنے لگا ہے۔
مقابلے کی اس دوڑ کا ایک عام آدمی پر اثر یہ پڑا کہ ایک ایس ایم ایس جو ٹیلی کام کمپنی ہی مارکیٹ میں چند کسٹمر کو بھیجتی ہے تھوڑی ہی دیر میں اس کا دائرہ پاکستان بھر میں پھیل جاتا ہے۔ موبائل فون کے غلط استعمال نے بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں اور طالب علموں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ سکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں موبائل پر نظر رکھے بغیر پیغام رسانی میں مصروف رہتے ہیں۔ ابھی کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں گھر سے آفس جانے کے لیے نکلا تو ہماری گلی سے کوڑا اٹھانے والے باپ بیٹے ریڑھی پر آگے اور پیچھے بیٹھے اپنے اپنے موبائل سیٹ کانوں کو لگائے باتیں کر رہے تھے۔ میرے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ میرے مزید معلوم کرنے پر مجھے پتہ چلا کہ متعدد موبائل ٹیلی کام کمپنیاں صرف روپے دو روپے کے عوض پورا پورا دن صارفین کو فری سروس مہیاکرتی ہیں۔ وطن عزیز میں یا تو ٹیلی کام کا ضابطہ اخلاق ہی موجود نہیں اور اگر ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جس ملک میں شناختی کارڈز کی فوٹوکاپیاں بازار سے تول کے حساب سے دستیاب ہوں وہاں پر ایک عام آدمی کا کئی کئی سمز کا مالک ہونا بعید نہیں۔
گذشتہ عید الفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر وزارتِ داخلہ کی طرف سے موبائل سروس بند کر دی گئی تھی جس سے ممکنہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی رونما ہوئی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ تقریباً سبھی ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلی فون کی ان کمنگ کال اور ایس ایم ایس پر کوئی سبسڈی نہیں ہے اور ایک عام صارف کسی انجانے نمبر سے آئے ہوئے ایس ایم ایس کو کھولنے سے پہلے سوچتا ہے۔ موبائل فون سروس کے بے دریغ اور غلط استعمال نے نہ صرف ملک میں لااینڈ آرڈر ،بدامنی اور سٹریٹ کرائم کو جنم دیا ہے بلکہ ہماری اخلاقیات کو بگاڑے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی چیز کا حد سے تجاوز استعمال معاشرے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایک مغربی مشاہدہ کے مطابق لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کا غیرضروری استعمال اب تک لاکھوں طلاقوں کا باعث بنا ہے جس کی زد میں آ کر لاکھوں خاندان اور کروڑوں بچے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔ شاید اسی لیے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات