کراچی میں کیوں امن قائم نہیں ہوسکتا ؟
زندگی میں ایک بار 2007ءمیں کراچی جانے کا اتفاق ہوا تھا وہاں پہنچ کر جس بات نے مجھے حالات کی سنگینی کااحساس کروایا وہ شہر کی دیواروں پر لکھی ہوئی یہ عبارت "پہلے گولی پھر بات" تھی اس عبارت کے نیچے نمایاں الفاظ میں ایم کیوایم لکھا ہوا تھا۔ میں صرف دو دن وہاں رہا لیکن اس دوران مجھے کراچی دیکھنے کا موقع اس لیے نہیں مل سکا کہ میزبان نے یہ کہہ کر آزادانہ پھرنے سے سختی سے منع کردیا کہ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر آپ کی زندہ واپسی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
جب سے ایم کیو ایم معرض و جود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک کراچی میں قومی اورصوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستیں ایم کیو ایم کے حصے میں آتی ہےں۔اب جب سے پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے تو اس نے سرکاری اداروں اور پولیس تھانوں میں اپنے جیالوں کو کسی میرٹ کے بغیر بھرتی کرنے کا ریکارڈ قائم کردیاہے ۔تیسری جانب وہ لوگ جو پہلے پنجابی پٹھان اتحاد کے تحت کراچی کے پندرہ بیس فیصد علاقوں میں رہائش پذیر تھے ان کو دانستہ پاکستان دشمن جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے جھنڈے تلے جمع کردیاگیا ہے ۔ بدقسمتی سے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی دونوں حکومت وقت کی اتحادی ہیں ۔
کراچی ایسا شہر ہے جہاں نہ آنے والوں کو قانون روکتا ہے اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والا ادارہ ان کی شناخت کو چیک کرنے کا پابند ہے یہی وجہ ہے کہ اسلحہ بھرے ٹرک دھڑا دھڑا کراچی پہنچتے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت وقت کی چشم پوشی اور خود جرائم کی آبیاری کرنے کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی میں قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے بارہا مرتبہ مثبت اور دوررس اقدامات دیکھنے میں آئے لیکن حکومت سندھ نہ تو سپریم کورٹ کے احکامات پر سچے دل سے عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہے اور نہ ہی وہ ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی بلیک میلنگ کے خوف سے انکے خلاف اقدامات کر رہی ہے۔ روز آٹھ دس انسان کراچی کے کسی نہ کسی حصے میں گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ مرنے والوں کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن حکومت وقت مصلحتوں کا شکار ہوکر کوئی واضح قدم اٹھانے سے مکمل طور پر گریزاں نظر آتی ہے۔
سندھ اور وفاقی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے رینجر بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے اب کہا جارہا ہے کہ کراچی کو فوج کے سپرد کردیا جائے لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ جب کسی امتیاز کے بغیر کراچی میں جرائم پیشہ افراد کی گرفت نہیں کی جائے گی امن قائم نہیں ہوسکتا ۔ پولیس تو ساری کی ساری ایم کیو ایم کے پے رول پر ہے جبکہ باقی ماندہ سرکاری اہلکاروں میں اب جیالوں اور سرخپوشوں نے بھی شامل ہوچکے ہیں اگر ان حالات میں کراچی کو فوج کے سپرد کیا گیا تو پہلے کی طرح فوج بھی ناکام ہوجائے گی اور کراچی پہلے سے بھی زیادہ ناسور کی شکل اختیار کرجائے گا۔ ماضی اس بات کا شاہد ہے کہ جب بھی فوج نے جرائم پیشہ افراد کو شکنجے میں جکڑا سیاستدان نہ صرف اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیلیں شروع کر دیتے ہیں بلکہ تمام مہاجروں سمیت بھارت واپس جانے کا اعلان بھی کرنے لگتے ہیں ان کے یہ بیانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں کہ مہاجر زیورات فروخت کرکے اپنے دفاع کے لیے کلاشنکوفیں خرید لیں۔ نواز شریف اور بے نظیر کے سابقہ ادوار میں کئی مرتبہ کراچی اور حیدر آباد میں فوجی آپریشن ہوچکے ہیں لیکن ان فوجی آپریشنوںکو اس لیے کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا کہ جرائم پیشہ لوگ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر وارداتیں کر رہے ہیں۔ بھتہ مافیا کی وجہ سے سرمایہ کاری اور صنعت کار کراچی کو خیر باد کہہ کر دوسروں ملکوں میں منتقل ہو رہے ہیں اگر کراچی کو پہلے کی طرح پرامن شہر بنانا ہے تو کراچی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ان کے دفاتر سیل کر نے اور نوگو ز ایریا ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی رہنماﺅں اور عہدیداروں کو کراچی بدر کرنا پڑے گا ۔
کراچی پولیس سمیت سرکاری اداروں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتی ختم کرکے میرٹ پر نئے سرے سے بھرتی کی جائے اور سیاسی جماعتوں کے پروردہ عناصر کو سرکاری دفاتر اور پولیس کی صفوںمیں نہ گھسنے دیاجائے ۔اگر حکومت ایسے غیر جانبدارانہ اقدامات نہیں کرتی تو پھر کراچی کو قیامت تک امن کا گہوارہ نہیں بنایا جاسکتا ۔فوجی آپریشن اس لیے بھی کراچی میں کامیاب نہیں ہوسکتا کہ جرائم پیشہ افراد گلی محلوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں فوج کھلے میدان میں تو دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے لیکن کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں کامیابی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ بہتر یہی ہوگاکہ رینجر یا فوج کو استعمال کرنے کی بجائے غیر جانبدارانہ سیاسی اقدامات کیے جائیں اور کراچی کے شہریوں کااعتماد بحال کرکے ان کا تعاون حاصل کیا جائے۔