• news

صدر کے دو عہدے

آجکل ایک مرتبہ پھر دوہری حیثیت، دوہرے عہدوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس سلسلہ میں ملاقاتیں بھی ہو رہی ہیں گھاتیں بھی ڈالی جا رہی ہیں، وارداتیں بھی ہو رہی ہیں راقم نے اس پر ایک عرصہ تک احتیاطاً بات نہیں کی مگر جب بات ہر کسی کی زبان پر آ گئی تو ہم نے بھی سوچا کہ ہم بھی چونکہ ذہن رکھتے ہیں منہ میں پائپ کے علاوہ زبان بھی رکھتے ہیں اس لئے اس پر کچھ بات کر لی جائے دوہری ، تہری، چوہری حیثیتوں کی بات اس پاکستان میں ہو رہی ہے جو دنیا جہان کی کوششوں کے باوجود جوہری مملکت بن چکا ہے اس لئے اس کے لئے جس جس حکومت نے کام کیا جس جس شخصیت نے جس جس حیثیت میں کام کیا اس پر بھی کافی کچھ یاد آ رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پاکستان کی ایٹمی طاقت بنانے کے لئے جو قربانیاں دیں اس میں ذوالفقار علی خان کے ساتھ ڈاکٹر قدیر خان ہی نہیں جناب غلام اسحاق خاں جنرل دوم ذوالفقار علی سمیت کافی جرنیلوں، کافی کرنیلوں کی خدمات کے ساتھ ساتھ سیٹھ عابد کا نام بھی آتا ہے مگر ہم بوجوہ ایک آدھ شخصیت کا نام لے کر آگے نکل جاتے ہیں۔
 1973ءکا آئین جب قوم کو ملا تو تب تک پاکستان دو لخت ہو چکا تھا تب کی قومی اسمبلی کے سپیکر چودھری فضل الٰہی مرحوم کو قومی اسمبلی سے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جگہ ایوان صدر میں لابٹھایا مرحوم کے پاس ایوان صدر میں مصروفیات کیا تھیں؟ اختیارات کتنے تھے؟
اس کے لئے کافی لطیفے، کہانیاں مشہور ہیں مثلاً تب کا ہی ایک لطیفہ ہے کہ ایوان صدر نیشن چودھری فضل الٰہی کے ایوان صدر کے باہر کسی نے لکھ دیا تھا ”صدر فضل الٰہی کو رہا کرو“ اس کے ساتھ ساتھ یہ لطیفہ بھی سنایا جاتا ہے کہ ایک اندھیری رات میں چودھری فضل الٰہی خود خاموشی سے نکلے اور کالی سیاہی سے ایوان صدر کی متبرک دیوار پر خود ہی یہ لکھ کر چلے گئے تھے جو کافی پاکستانیوں کو اب شاید یاد نہیں....
اب تو شاید کافی پاکستانیوں کو یہ بھی بھول چکا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت تو میرے ذاتی ممدوح جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءلگا کر ختم کر دی مگر چودھری فضل الٰہی مرحوم کو ایوان صدر میں رکھا تآنکہ آئین میں دی مدت صدارت کا موقع (پریڈ) بھی گزر گیا کافی ضرورت مند، خواہش مند لوگوں نے بعد میں جب جنرل ضیاءالحق مرحوم سے کہا کہ آپ چودھری فضل الٰہی مرحوم کو رہا کر دیں اور بے شک ان کی جگہ مطالبہ کرنے والوں میں سے ایک کو ایوان صدر میں بٹھا لیں تو جنرل ضیاءالحق مرحوم نے کسی اور کو وہاں بٹھانے کی بجائے خود وہاں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا حالانکہ یہ کام جنرل ضیاءالحق کی موجودگی میں (ر) ایئر مارشل اصغر خان سمیت مجھ مسکین تک کافی لوگ کرنے کو تیار تھے!!!
خیر اس کے بعد راقم کے ہم نام جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ منتخب ہو کر ایوان صدر میں آ گئے۔ یاد آ رہا ہے کہ جنرل ضیاءالحق مرحوم نے ایوان صدر میں بیٹھنے کی پیشکش مرد مجید جناب مجید نظامی کو بھی کی تھی مگر انہوں نے بڑے باوقار طریقے سے یہ پیشکش قبول نہ کی تھی....
 یہاں تو یہ کرنا تھا کہ 1973ءکے آئین کو بنانے والے اور نافذ کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے ہی وزیر اعظم اور صدر دونوں کے عہدے رکھنے کی بجائے چودھری فضل الٰہی کو صدر بنا دیا جب میاں نواز شریف سے (ر) جنرل پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار حاصل کیا تو تب کے منتخب صدر محمد رفیق تارڑ کو جس طرح ایوان صدر سے نکالا گیا وہ بھی دلچسپی سے زیادہ دلخراش بات ہے بات لمبی نہ ہو جائے اس لئے اب جناب صدر سے یہی درخواست کرنے کو جی کر رہا ہے کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے جناب صدر ہی نہیں گورنر صاحبان کو بھی آئندہ انتخابات کے سبب سیاسی امور سے دور رہنے کا کہہ دیا گیا ہے تو کیا یہ بہت اچھا نہ ہو گا کہ جناب صدر لاہور ہائی کورٹ سے فیصلہ آنے سے پہلے ایک عہدہ چھوڑ دیں!!
 ویسے آئندہ حالات میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ملنے والے اختیارات کے خاتمہ کے بعد یقینا پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین کا عہدہ کہیں اہم ہے ویسے آخر میں یاد آ جانے والی بات لکھ دینے میں کیا حرج ہے کہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی سپوتری جب وزیر اعظم بھارت بنی تو موصوفہ کو کانگریس کے صدر شری کامراج نے بھارتی آئین کے مطابق بے اختیار ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے امور تک محدود یا limited کر دیا تھا....
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن