بلوچستان حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہوئی‘ اسمبلی کو کچھ نہیں کہا‘ پارلیمانی نظام کے سخت حامی ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (این این آئی + اے پی اے + ثناءنیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان بدامنی کیس میں حکومتی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر بلوچستان حکومت کو لاپتہ افراد بازیاب کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ریاستی امور آئین کے مطابق نہیں چل رہے، حکومت کی ناک کے نیچے ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، جمہوری اداروں پر یقین رکھتے ہیں، اسمبلی کو کچھ نہیں کہا، امن و امان برقرار رکھنا اسمبلی نہیں حکومت کی ذمہ داری ہے، بلوچستان میں حالات بہتر ہونے کا تاثر درست نہیں، بلوچستان کی 12 اکتوبر سے پہلے اور موجودہ صورتحال میں کوئی فرق نہیں، کسی شخص کو مارنے کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کی۔ منگل کو سماعت شروع ہوئی تو چیف سیکرٹری بلوچستان نے دوسری عملدرآمد رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے مسترد کر دیا گیا، بلوچستان بار کے نائب صدر نے عدالت کو بتایا کہ اب تک صوبے میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ 28 صحافی بھی قتل ہو چکے ہیں۔ ڈی آئی جی سی آئی ڈی نے بتایا کہ عدالتی حکم سے پہلے ایک ماہ میں 39 جبکہ بعد کے اسی عرصے میں 34 افراد مارے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی ناک کے نیچے ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ایک ہزار سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے جبکہ ایف سی کے 432 اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، اہل تشیع حضرات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور اب تک کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوری اداروں پر یقین رکھتے ہیں، گذشتہ روز پورے کوئٹہ میں ہیلتھ سروسز بند تھیں، ڈاکٹر سعید کے اغوا میں کون ملوث ہے سب کو پتہ ہے، وکلا اور ڈاکٹرز سمیت لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ پنجگور میں صحافی کو قتل کر دیا گیا ہے، ان صحافیوں کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟ خود ایف سی کے اہلکار بھی ذبح کئے جا رہے۔ ڈیرہ بگٹی ابھی بھی محاصرے میں ہے جہاں ووٹوں کا اندراج بھی نہیں ہو سکا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ ڈاکٹروں اور وکلا کو پیش کر دیں تو سمجھیں گے کہ معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، فرقہ وارانہ ہلاکتوں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی کے خلاف بات نہیں کرتے ہم تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم نامے میں چیف سیکرٹری کے ذریعے صوبائی حکومت کو دوبارہ ہدایت کی ہے کہ صوبائی حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور بلوچستان حکومت لاپتہ افراد بازیاب کرائے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے امن و امان کےلئے کوئی بھی مثبت قدم نہیں اٹھایا، بلوچستان کی 12 اکتوبر سے پہلے اور موجودہ صورتحال میں کوئی فرق نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی نے بہتری کے لئے م¶ثر اقدامات تجویز نہیں کئے۔ بعدازاں صوبائی حکومت کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ کچھ وقت دیں، حالات پر قابو پا لیں گے جس پر عدالت نے بلوچستان حکومت کو لاپتہ افراد بازیاب کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 5 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے ایک موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم تو پارلمیانی نظام کے سخت حامی ہیں۔ بلوچستان بدامنی کیس فیصلہ کی غلط تشریح کی جا رہی ہے کسی کو بھی ہلاکتوں کا لائسنس نہیں دیا جا سکتا، صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ہم پارلیمانی نظام کی مضبوطی چاہتے ہیں ہم پارلیمنٹ اور اسمبلیوں پر یقین رکھتے ہیں ہم کہتے ہیں صوبائی حکومت لوگوں کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہوئی۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ بلوچستان کیس میں نظر ثانی درخواست کو عدالت کو سیکنڈلائز کرنے کا الزام لگا کر واپس کر دیا گیا میں حیران ہوں کہ اعتراض کیوں کیا گیا اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ درخواست دی جا رہی تھی تو عدالت کو سیکنڈلائز کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دوران سماعت بلوچستان حکومت کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ حکومت مانتی ہے کہ معاملات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان حکومت کے پاس تین آپشن تھے اسمبلی تحلیل کرتی، ایمرجنسی لگاتی یا اعتماد کا ووٹ لیتی حکومت نے اعتماد کا ووٹ لینے کا آپشن استعمال کیا۔
بلوچستان کیس