• news

اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تقرری کی درخواست قابل سماعت قرار‘ صدر کے پاس ججوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں: سپریم کورٹ

اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت +اے پی اے) سپرےم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ مےں ججز تقرری کے معاملہ کو آرٹےکل 184 کے تحت قابل سماعت قرار دےدےا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو معاملہ پر آج (بدھ تک) حکومت سے ہداےات لےکر عدالت کو آگاہ کرنے اور اگر کوئی دستاوےزات ہےں تو جمع کرانے کی ہداےت کی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ صدر کے پاس ججوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے سواکوئی آپشن نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسےن کی سربراہی مےں عدالت عظمیٰ کے چار رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ مےں دو ججز جسٹس شوکت عزےز صدےقی کے کنفرم ہونے اور جسٹس نور الحق قرےشی کی مدت ملازمت مےں چھ ماہ کی توسےع کے معاملہ پر ندےم احمد اےڈووکےٹ کی آئےنی درخواست کی سماعت کی۔ دونوں ججز کے معاملہ پر جوڈےشل کمےشن نے سفارش کی تھی اور بعد مےں پارلےمانی کمےٹی نے اس کی منظوری دی تھی لےکن اس کا نوٹےفےکےشن جاری نہےں کےا گےا۔ عدالت نے اکرم شےخ اےڈووکےٹ کی جانب سے معاملہ پر حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست مسترد کر دی جبکہ جسٹس آصف سعےد خان کھوسہ نے قرار دےا کہ ہر کسی کو جوڈےشل کمےشن کی حےثےت پر فےصلہ کرنے کا اختےار نہےں دےا جا سکتا کےا کسی نے پہلے جوڈےشل کمےشن کی تشکےل کو چےلنج کےا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے رےمارکس دئےے کہ پارلےمانی کمےٹی کی سفارشات مےں تبدےلی نہےں کی جا سکتی وزےراعظم کمےٹی کی سفارشات مےں تبدےلی نہےں کر سکتے اور وہ سفارشات کو من و عن صدر کو بھجوانے کے پابند ہےں جبکہ اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ صدر اور وزےر اعظم کسی کو جواب دہ نہےں صدر رےاست کا سربراہ ہے آئےن پر عمل کرنا اس کا اختےار ہے۔ پٹےشن چےف جسٹس کی اےماءپر دائر کی گئی۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکےل اکرم شےخ نے کہا کہ آئےنی عمل مکمل ہونے کے بعدججز کی تقرری اور تعےناتی کا نوٹیفکیشن نہےں روکا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے موکل وزارت قانون سے ہداےات لےنے کے بعد عدالت مےں گزارشات پےش کرےں گے۔ دوران سماعت ججز اور اٹارنی جنرل مےں کچھ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ آرام سے بات کرےں اور اس حوالہ سے بھی ہداےات لے لےں کہ آپ نے جھگڑا کرنا ہے ےا تسلی سے بات کرنی ہے،آپکا رویہ جارحانہ ہوتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مائےک اونچا ہونے کی وجہ سے ان کی آواز بلند ہوجاتی ہے ان کی آواز وےسے بھی اونچی ہے اورےہ پےدائشی مسئلہ ہے ان کا انداز جارحانہ نہےں وہ پےار سے بات کرتے ہےں۔ عدالت ےہ نہ سمجھے کہ وہ کوئی لڑائی جھگڑا کر رہے ہےں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہداےات لےنی ہےں دلائل مختصر ہوں گے اےک گھنٹہ کافی ہو گا۔ جسٹس خلجی عارف حسےن نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اےشو تک رہےں ہداےات لےنی ہےں تو لے لےں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپنی نوعےت کا پہلا کےس ہے تفصےلی دلائل دےنا چاہتا ہوں۔ جسٹس آصف سعےد کھوسہ نے کہا کہ ےہ آئےنی معاملات ہےں جارحانہ انداز اپنانے کی ضرورت نہےں۔ جسٹس خلجی عارف حسےن نے کہا کہ ہم کسی جلدی مےں نہےں ہےں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پھر اےک ہفتہ کا وقت دےدےں۔ اٹارنی جنرل نے ججز سے کہا کہ آپ جو کہلوانا چاہتے ہےں مےں کہہ دےتا ہوں اس پر جسٹس خلجی عارف حسےن نے کہا کہ ہم آپ سے کچھ نہےں کہلوانا چاہتے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ درخواست کے قابل سماعت ہونے ےا نہ ہونے پر بھی با ت کرےں گے۔ جوڈےشل کمےشن کی سفارشات درست نہ ہونے کی بناءپر صدر نے سفارشات روکےں۔سینئر جج کی بجائے جونےئر جج کو کمےشن مےں شامل کےا گےا۔ جسٹس آصف سعےد کھوسہ نے کہا کہ کےا کسی نے کمےشن کی تشکےل کوچےلنج کےا تھا، ہر کسی کو کمےشن کی حےثےت کے تعےن کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کمےشن کی حےثےت کو چےلنج کرنے کی ضرورت نہےں تھی۔ اےسے کمےشن کے فےصلہ کو نظر انداز کےا جانا چاہےے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے جسٹس انور کاسی کی کمےشن مےں شرکت پر سوال اٹھاےا۔ انور کاسی کی کمےشن مےں شرکت کے باعث کمےشن کی سفارشات پر مزےد کارروائی نہےں کی جا سکتی۔ انکا کہنا تھا کہ آئےن کے تحت صدر اور وزےر اعظم کسی کو جوابدہ نہےں۔ درخواست گزار کے وکےل اکرم شےخ نے کہا کہ جوڈےشل کمےشن کا فےصلہ سپرےم ہوتا ہے اس مےں صدر کو رد و بدل کرنے کی اجازت نہےں وہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے پابند ہےں۔ اس پرجسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آپ ہمےں صدر کا اختےار سلب کرنے کی بات کر رہے ہےں جو کہ آئےن کے تحت ممکن نہےں۔ جسٹس خلجی عارف کا کہنا تھا کہ کس قانون کے تحت ججز کو کام جاری رکھنے حکم دےں۔ کےا سپرےم کورٹ اس معاملہ کا براہ راست جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ صدر کے پاس ججوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ وہ بھیجی گئی سمری پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 175/اے میں صدر کو کسی جج کی نامزدگی واپس کرنے کا ذکر نہیں۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوگا کہ عدالتی فیصلہ کوئی بھی رد کرسکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ججز تقرری کا نوٹیفکیشن صدر نے کرنا ہے۔ صدر کا یہ اختیار عدالت کیسے سلب کرسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن