سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع نہ ہے نہ کوئی جرم کیا‘ اپیل کیوں کروں: اسلم بیگ
لاہور (ندائے ملت رپورٹ) سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے فوج کا سیاسی سیل ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا۔ حکمران چاہتے ہیں ملک میں افراتفری پھیلے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے وزیرستان میں آپریشن کرانا چاہتا ہے۔ اداروں سے ٹکراﺅ سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہفت روزہ ندائے ملت کو خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا اپنے سپریم کمانڈر کا حکم مان کر کوئی غیرقانونی اور غیر آئینی کام نہیں کیا۔ فوج کے افسروں کا فوجی نظام عدل کے تحت احتساب کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا میرے وکیل کو جنرل درانی اور بریگیڈیئر حامد سعید پر جرح تک نہیں کرنے دی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اصغر خان کیس کے فیصلے سے ہرگز مطمئن نہیں، اس لئے کہ فوج کا سپریم کمانڈر صدر مملکت ہوتا ہے اور فوج ڈسپلن کی قائل ہے، کوئی فوجی اپنے سینئر کی حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ ہم نے صدر اسحق خان کے حکم کی تعمیل کی تو کون سے قانون کی خلاف ورزی ہو گئی، جب کوئی سپریم کمانڈر حکم دیتا ہے تو پھر کوئی بھی فوجی پیچھے نہیں دیکھتا، اس کی نظریں منزل کی طرف ہوتی ہیں۔ غلام اسحق خان عوام کے منتخب صدر تھے جنہیں عوام کے نمائندوں سے اسمبلی میں اپنے ووٹوں سے صدر مملکت منتخب کیا تھا۔ صدر نے اپنے اختیارات کے مطابق ہمیں جو حکم دیا ہم نے اس کی تعمیل کی، کوئی غیرقانونی کام کیا گیا ہے تو پھر ہمارا فوجی قوانین کے مطابق احتساب ہونا چاہئے۔ یہاں بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح فوجی افسروں کے خلاف مقدمات فوجی نظام عدل کے تحت چلانے چاہئیں تاکہ ان کی بے عزتی نہ ہو مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تو ہمارا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا، ہمارا سرعام احتساب کیا جا رہا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ فوج کے جوانوں کو یہ منظور نہیں کہ ان کے افسروں کا اس طرح ٹرائل کیا جائے اس لئے جنرل کیانی نے کہا ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ انہوں نے کہا جنرل کیانی اقتدار پر قبضہ نہیں کرینگے اور نہ ہی وہ اس قسم کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ شب خون نہیں مارینگے البتہ ان کا بیان صاف اور واضح ہے۔ وہ اپنی فوج کی تضحیک برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے وہ سب کو حدود میں رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے یا نیچا دکھانے کے عمل سے نقصان تو جمہوریت کو ہی پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جہاں تک اپیل کا تعلق ہے تو میں اس فیصلے کو نہیں مانتا اس لئے اپیل میں نہیں جاﺅں گا۔ سپریم کورٹ نے نیب اور ایف آئی اے میں کیس دینے کا حکم دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ جانتی ہے ان اداروں نے ان کے پہلے کتنے احکامات تسلیم کئے جس سے مطمئن ہو کر انہوں نے ہمارا کیس ان کے حوالے کرنے کی بات کی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مجھے اور اسد درانی کو مجرم قرار دیا ہے۔ میرا موقف ہے اسحق خان نے آئی ایس آئی کو الیکشن کے موقع پر سیاسی کردار ادا کرنے کیلئے کہا تو ایسا پہلی دفعہ تو نہیں ہوا، صدور نے 1988ءاور 1990ءمیں بھی آئی ایس آئی کو استعمال کیا ہو گا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاءالحق نے گیارہ برس تک آئی ایس آئی کو استعمال کیا۔ آئی ایس آئی کا سیاسی سیل ہم نے تو نہیں بنایا، آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے آئی ایس آئی کا سیاسی سیل قائم کیا۔ 1973ءمیں آئین تشکیل پایا اور بھٹو صاحب نے 1975ءمیں آئی ایس آئی کا سیاسی سیل قائم کر دیا۔ 1997 میں جب یہ کیس شروع ہوا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے حکم دیا کہ آئی ایس آئی کا سیاسی سیل ختم کیا جائے مگر ان کے حکم پر عمل نہ ہوا۔ جسٹس سجاد علی شاہ آئے تو انہوں نے بھی اس سیل کو ختم کرنے کا حکم دیا مگر اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوا۔ 2012ءمیں اصغر خان کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو دیکھنے میں آیا ان دونوں ججوں کے احکامات عدالتی ریکارڈ سے غائب کر دیئے گئے۔ اس سے سازش بے نقاب ہو جاتی ہے۔ یہ سازش اصل میں نصیر اللہ بابر اور رحمن ملک کی تیار کردہ ہے حالانکہ جب یہ سازش تیار کی گئی تو اس وقت یہ لوگ حمید گل کے پاس بھی گئے تھے لیکن حمید گل نے انہیں کہا اسے لے جائیں یہ ملک کے خلاف سازش ہے۔ پھر آپ دیکھیں جب ہمارے وکیل نے جنرل درانی، بریگیڈیئر حامد سعید اور یونس حبیب پر جرح کرنی چاہی تو انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اسد درانی کو تو پھنسایا گیا، اسے بلیک میل کیا گیا۔ پھر اسد درانی کا اپنا کردار دیکھئے جبکہ آئی ایس آئی کے چیف تھے تو اس حیثیت میں انہوں نے ایک دفعہ پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی، اسی بنیاد پر انہیں نکالا گیا۔ دنیا میں کہیں بھی فوجی افسروں اور جوانوں کو اس طرح ٹارگٹ نہیں کیا جاتا۔ اگر ان سے کچھ غلطیاں سرزد بھی ہوئی ہوں تو اس کے لئے ان کے اندر ٹرائل کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ ان کی زندگی میں تو کسی نے ان پر انگلی نہیں اٹھائی، ان کے انتقال کے بعد ان کی کردار کشی قابل افسوس ہے۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا جس کے لئے اپیل میں جاﺅں، مجھے جب اس سپریم کورٹ سے انصاف کی توقع نہیں تو پھر میں کیوں سپریم کورٹ جاﺅں۔ انہوں نے کہا یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب الیکشن سر پر ہیں۔ اس طرح پینڈورا بکس کھلنے سے ملک میں افراتفری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اس سے نواز شریف سمیت کئی سیاستدان الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں گے۔ اس کیس سے انتشار پیدا ہوا تو الیکشن التواءکا شکار ہو سکتے ہیں۔ میں تو صاف طور پر کہتا ہوں یہ سب فوج اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے ایک سوال پر کہا محترمہ بے نظیر بھٹو قومی سلامتی کے لئے ہرگز خطرہ نہیں تھیں اور نہ ہی میں نے پکا قلعہ آپریشن کے حوالے سے انہیں کسی قسم کا کوئی خط لکھا تھا۔ حمید گل کہتے ہیں کہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی تھی تو اس سے متعلق وہی جواب دے سکتے ہیں۔ حکمرانوں نے 5 سالوں میں لوٹ مار کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس سے توجہ ہٹانے کیلئے وہ اس فیصلے کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی کرپشن سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے اور وہ ایک بار پھر الیکشن میں عوام کی توجہ حاصل کر سکیں۔ لوگوں کو پتہ ہے 5 برسوں میں حکومت نے عوام کو غربت کی چکی تلے پیس کر رکھ دیا ہے، بجلی گیس پانی تک عوام کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں، بے روزگاری اور لاقانونیت عام ہے۔ انہوں نے کہا امریکی اصل میں اندر سے ایک ہوتے ہیں، ان کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں۔ اوباما آئیں یا بش آپ دیکھ لیں سب نے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ خطے میں تبدیلی صرف اس صورت میں آئے گی جب امریکہ افغانستان سے باہر نکل جائے گا۔ امریکہ چاہتا ہے طالبان آپس میں لڑ پڑیں اور، ان کا رخ پاکستان کی طرف ہو جائے، وہ ہمارا نقصان کر کے خطے سے جانا چاہتا ہے۔