ریکوڈک کیس: سمجھوتے کا لفظ لغت سے نکال دیا جائے‘ دنیا کو پیغام دینا چاہتے ہیں‘ آئینی اختیار سے دستبردار نہیں ہوں گے: چیف جسٹس
اسلام آباد (ثناءنیوز + این این آئی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ سمجھوتے کا لفظ اب پاکستان کی لغت سے نکال دینا چاہئے۔ ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اب صرف شفافیت کی بات ہو گی۔ غیر امتیازی برتا¶ یقینی بنانے کے لئے ہر حد تک جا سکتے ہیں، عالمی سطح پر بلاتفریق عدالتی کارروائی کا پیغام دینا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ اپنے آئینی اختیار سے دستبردار نہیں ہو گی۔ کوئی کمپنی ایسی رعائت نہیں لے سکتی جو قواعد کے خلاف ہو۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال پر فیصلہ دیا جس پر حکومت نے عمل نہیں کیا۔ شہر میں ادلے کے بدلے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 17 کی نشاندہی کی گئی لیکن استفادہ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس ریکوڈک کیس کی سماعت کے دوران دیئے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں کرپشن کے پہلو کو بھی دیکھنا ہو گا۔ ٹیتھیان کو غیر معمولی رعائتیں دی گئیں، دیکھنا ہو گا کہ معاہدہ قانون کے مطابق ہوا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں عدالت کو کرپشن اور ادارتی قوانین سے تجاوز کا جائزہ بھی لینا ہو گا اور پالیسی رولز کو بھی دیکھا جائے گا اور کسی کمپنی کو ایسی رعایت نہیں دی جا سکتی جس کی قوانین میں گنجائش نہ ہو کیونکہ یہ مقدمہ آئین کے آرٹیکل (3)184 کے زمرے میں آتا ہے۔ اس موقع پر ٹیتھیان کاپر کمپنی کے وکیل خالد انور نے کہا کہ پاکستان اور بیرونی عدالتوں نے مخالف حکم دیئے تو تنازعہ پیدا ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کمپنی کو مائننگ لائسنس کا یقین نہ ہوتا تو کمپنی سرمایہ کاری ہی نہ کرتی۔ عدالتی حکم سے معاہدہ منسوخ ہوا تو ریاست کو نقصان اٹھانا ہو گا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت یہ دیکھے گی کہ معاہدہ ملکی مفاد میں ہے یا نہیں۔ ملکی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کریں گے کسی کو امتیازی نوعیت کی رعایت نہیں مل سکتی۔ ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کمپنی کے وکیل عدالت کو مطمئن کریں کہ معاہدے کے دوران قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ ٹیتھےان کمپنی کو غیر معمولی رعایتیں دی گئیں کیا مائننگ لائسنس سے متعلق عالمی تحریر موجود ہے جس پر کمپنی کے وکیل خالد انور نے جواب دیا کہ یہ انفرادی اور نجی ڈیل تھی اس کے لئے عالمی آڑ کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کمپنی ایسی رعایت نہیں لے سکتی جس کی قانون اجازت نہ دیتا ہو۔ جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ معاہدہ کے بعد بلوچستان حکومت عملاً پی ایچ بی کے ہاتھوں یرغمال بن گئی جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مائننگ لائسنس سے پہلے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ بھی ضروری ہوتی ہے۔ خالد انور نے م¶قف اختیار کیا کہ جو کمپنی ذخائر تلاش کرتی ہے مائننگ بھی اسی کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیزیبلٹی رپورٹ صرف دو جگہ جمع کرائی گئی ہے۔ کمپنی کے وکیل نے کہا کہ منصوبے کی کل مالیت 3.3 ارب ڈالر ہے۔ معاہدہ ختم ہو گیا تو ملک کے پاس مائننگ کے وسائل ہی نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں اللہ کی مہربانی ہے ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ملکی صلاحیت پر شک نہ کریں۔ فائدے کے لئے کسی کو رعایتیں نہیں دی جا سکتیں لفظ سمجھوتہ پاکستان کی لغت سے نکال دینا چاہئے۔ اب صرف شفافیت کی بات ہو گی۔ خالد انور نے م¶قف اختیار کیا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ عالمی سطح پر مسترد کر دیا جائے گا۔ اگر یہ معاہدہ کالعدم قرار دیا گیا تو تیل کے 50 سے 60 معاہدے خودبخود کالعدم ہو جائیں گے۔ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں نہ ڈرائیں مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدہ کی آڑ میں کمپنی نے پورا علاقہ بلاک کر دیا۔ 14 مقامات پر مائننگ چاہتے ہیں اور فیزیبلٹی صرف 2 مقامات کی جمع کرائی گئی۔ خالد انور نے کہا کہ بلوچستان میں کان کنی کے وہی قوانین ہیں جو دوسرے صوبوں میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ملکی قوانین اور دیگر معدنیات کے معاہدوں کی مثال دے کر عدالت کو مطمئن کریں۔ خالد انور نے کہا کہ کان کنی کو سرمایہ کاری کے لئے پرکشش بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے پالیسی کو تبدیل کیا گیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ٹیتھےان کمپنی کو غیر معمولی رعایت دی گئی ایک روپیہ کے حساب سے 33 لاکھ ایکڑ زمین دی گئی اور بعد میں برائے نام رقم معاف کر دی گئی۔ ٹیتھےان کمپنی کے وکیل نے کہا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ صوبے کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے۔ معاملے کے حل کے لئے بندوق نہیں مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ کراچی میں بھی ایسے مقامات ہیں جہاں پر میں بھی نہیں جا سکتا اور آپ بھی نہیں جا سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کراچی میں امن و امان کی صورت حال پر فیصلہ دیا جس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ عدالت نے جتنی بھی ہدایات دیں سب کو نظر انداز کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں موجود عسکری ونگز ختم کرنے کے لئے دیئے گئے حکم پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد دو ماہ تک حالات اچھے رہے تاہم اب حالات پھر ویسے کے ویسے ہو گئے بعدازاں ریکوڈک مقدمہ کی سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔