ہاکی.... ہارنے کے بعد بھی مطمئن‘ لیکن کیوں....؟
پاکستان ہاکی ٹیم کینگروز کے دیس پہنچ چکی ہے جہاں گرین شرٹس سیریز ہاکی ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے بعد چیمپئنز ٹرافی میں قسمت آزمائی کرے گی۔ ہیڈ کوچ اختر رسول کو بھی اپنی ٹیم سے اچھی کارکردگی کی توقع ہے دیکھنا یہ ہے کہ کھلاڑی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ امید ہے کہ دونوں ٹورنامنٹس میں شرکت کے بعد جب ہاکی ٹیم وطن واپس پہنچے گی تو انتظامیہ کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دے گی۔ جونیئر ہاکی ٹیم بھی ملائشیا میں 6 ملکی ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچ چکی ہے۔ ٹیم کے ہیڈ کوچ و منیجر رانا مجاہد علی اپنے کھلاڑیوں کی مجموعی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ جونیئر ٹیم صرف ایک میچ جیتنے میں کامیاب ہو سکی تھی گذشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک میں کسی بھی قسم کی کارکردگی کے بعد حکام اور ٹیم کی کوچنگ و قیادت کرنے والے وطن واپسی پر اسے تسلی بخش قرار دیتے ہیں۔ قومی کھیل ہاکی اس میں سرفہرست ہے۔ آج کیا وجہ ہے کہ شکست اور ناکامی کے بعد بھی ”مطمئن“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس پر مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔ جونیئر ٹیم کے ہیڈ کوچ رانا مجاہد اس کی وجہ یوں بیان فرماتے ہیں ”ٹیم انتظامیہ کا اپنا ہدف ہوتا ہے جو کہ کھلاڑیوں کی قابلیت اور صلاحیت کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ مطالبہ اور توقع رہی ہے کہ ہمیشہ جیتا جائے۔ عوامی مطالبہ زمینی حقائق کی روشنی میں غیر مناسب ہے لیکن یہ بھی درست نہیں ہے کہ ہمیشہ شکست کے ساتھ ہی وطن واپس آ جائیں۔ ہم دنیا میں ہر وقت فاتح نہیں ہو سکتے۔ یہ بھی درست نہیں کہ ہارتے ہی چلے جائیں۔ رانا مجاہد یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ موجودہ وقت میں ہمیں ہار قبول کرنا ہو گی۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب ہم جیتنا شروع کر دیں گے۔ ”پاکستان ہاکی کے کامیاب ترین کوچ خواجہ ذکاءالدین کا کہنا ہے “کہ یہ ایک دو برس کی بات نہیں عرصہ دراز سے ٹیم جس کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اسے تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ متعلقہ حکام کس طرح ہارنے کے بعد مطمئن ہوتے ہیں۔ حالات کی سنگینی اور مسائل جن کا ذکر کیا جاتا ہے میں ان سے متفق ہوں لیکن ان کو درست کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں، جو صاحب اقتدار ہیں وہ تمام خامیوں، برائیوں اور مسائل سے بخوبی واقف ہیں پھر اصلاح کیوں نہیں ہو رہی۔ اگر ہم ہار رہے ہیں تو کیا ہم ہمیشہ ہارتے ہی رہیں گے، ہاکی میں ہم پیچھے ہیں تو کیا کبھی اوپر بھی آنا ہے یا نہیں، جو ماڈرن ہاکی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مجھے گذشتہ کئی برسوں سے ان کی سرپرستی میں ماڈرن ہاکی کہیں نظر نہیں آئی۔ حال ہی میں انٹرنیشنل یوتھ سپورٹس فیسٹیول کے ہاکی ایونٹ کے فائنل میں بھارتی پنجاب کی ٹیم ماڈرن ہاکی کھیلنے کی وجہ سے جیت گئی ہم کیوں ماڈرن ہاکی نہیں کھیل سکے اس کا جواب کون دے گا؟ ہارنے کے بعد مطمئن ہونا ڈھٹائی ہے۔ اپنے کھیل، رویوں، طرز عمل اور سوچ میں جدت لائے بغیر اور زبانی جمع خرچ کے بجائے بہتری کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔“
قومی ہاکی ٹیم کے سابق کوچ خواجہ جنید یوں فرماتے ہیں کہ ”مطمئن کا لفظ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب ہم ہالینڈ‘ جرمنی‘ آسٹریلیا‘ سپین اور برطانیہ جیسی مضبوط ٹیموں کے خلاف کھیلتے ہیں تو اپنی ٹیم کی قوت کو دیکھتے ہوئے اگر ہم بڑے مارجن سے نہیں ہارتے‘ کھلاڑی مقابلہ کرکے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہی وہ چیز ہوتی ہے جو کوچنگ سٹاف کے لئے باعث اطمینان ہوتی ہے۔ البتہ ایشیا کی سطح پر ہمارا شمار بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ اس سطح پر ناکامی کے بعد کسی بھی صورت کارکردگی کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خواجہ جنید کے مطابق قومی ٹیم کے موجودہ کھلاڑی آئندہ 16 سے 18 ماہ مسلسل اور اکٹھے کھیل جاتے ہیں تو پھر یہ دنیا کسی بھی ٹیم کے خلاف حیران کن کارکردگی پیش کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے اس کے بعد یہ کھلاڑی ہارنے کے بعد پرفارمنس کو تسلی بخش قرار نہیں دے سکتے آنے والا وقت ان کے احتساب کا بھی ہے۔ “
ایک طرف عوامی توقعات ہیں تو ایک طرف سابق کھلاڑیوں کی توقعات ہیں۔ ہماری قومی ٹیم ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتی البتہ ہاکی کا بااختیار طبقہ مطمئن ہے۔ جونیئر ٹیم واپسی کے بعد مطمئن ہے اور سینئر ٹیم والے بہت جلد تسلی بخش کارکردگی کے وطن واپس پہنچ جائیں گے۔ دعا ہے کہ وہ سلسلہ جلد شروع ہو جب حکام کے ساتھ ساتھ عوام اور سابق کھلاڑی بھی قومی کھیل کی سربلندی کے لئے دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی کی تعریف کرتے‘ ان کی حوصلہ افزائی کرتے کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے نظر آئیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اسکے لئے انتظار کی تکلیف کو برداشت کرنا ابھی باقی ہے ہمیں مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ ہم ہاکی کے حکمران تھے ہمارا ماضی شاندار تھا اور ہم اچھے مستقبل کے لئے بھی پرامید ہیں۔ وہ وقت ضرور آئے گا جب دنیا بھر کے ہاکی سٹڈیمز میں ان نعروں کی گونج سنائی دے گی۔ پاکستان زندہ باد پاکستان ہاکی زندہ باد۔