نئے صوبے بنانے سے کون سا مسئلہ حل ہو گا؟
حکمرانوں نے بالاتفاق جن شوشوں کو مصلحتاً طاق میں رکھا ہوا ہے ان میں سے ایک شوشہ نئے صوبے بنانے، پنجاب کی تقسیم المعروف سرائیکی صوبہ کا ہے۔ خدشات سے لبریز اس 440 وولٹ شوشے کا رزمیہ گیت الیکشن کے طبل جنگ پر زور شور سے گایا جائے گا۔
تقریباً بیس سال قبل ہمارے ایک جاننے والے جرنیل نے اپنا ایک تھیسس دکھایا تھا جس میں صوبوں کی تشکیل نو کا رنگین زائچہ بھی شامل تھا۔ پاکستان کو چودہ صوبوں میں تقسیم کرنے کے اس افسانے میں نہ جانے کیوں رنگ نہ بھرا جا سکا البتہ سیاستدانوں کی حالیہ رَٹ سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید سوئے ہوئے تاروں میں پھر سے کرنٹ چھوڑا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے صوبے بنانے سے وہ کون سا مسئلہ ہے جس کے حل ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟؟ماہرین معاشیات، قرض دینے والے اندرونی بیرونی ادارے اور تمام دانشور اس نکتے پر متفق ہیں کہ پاکستان کی بیمار معیشت کا واحد بڑا علاج حکومتی اخراجات میں کمی اور وسائل میں اضافہ ہے۔ کیا نئے صوبے بنانے سے اس علاج کا الٹ سرزد نہیں ہو گا؟
آج پاکستان کے بڑے بڑے مسائل یہ ہیں۔ بجلی اور توانائی کی شدید کمی، روزگار کے کم مواقع، مہنگائی کا جن، امن و امان کی دم توڑتی صورتحال، واپڈا، سٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے اور دیگر برے اداروں کے نزعی بحران، دہشت گردی، الغرض مسائل ایسے کہ جنہیں دیکھ کر وطن عزیز کی حالت پر رحم آنے لگتا ہے۔ دوسری جانب گھر کی تقسیم کے نت نئے فارمولے، لیڈران کرام رہنمائی کے بجائے علاقائی، وقتی اور فروعی نعروں پر بغلیں بجا رہے ہیں۔ ذمہ دارانہ قیادت کے ذریعہ اتفاق و اتحاد کے بجائے جعلی اختلافات کی سیاست کی جا رہی ہے۔ کرپشن چھپانے کے لئے واضح روشن اور کامیاب تعاون کیا جا رہا ہے۔ تقریباً سبھی قابل ذکر پارٹیاں کہیں نہ کہیں اقتدار میں ہیں۔ سب کے منہ کھرلیوں میں ہیں۔ سب شور شرابہ دکھاوے کا ہے۔ کبھی ایک شوشہ کبھی دوسرا مگر سب سے خطرناک شوشہ نئے صوبوں کا ہے۔ حضور جب چار چولہوں کی بجائے چودہ چولہے جلنے لگے مانا رنگا رنگ کھانے اور مزے وافر ہوں گے مگر اتنا ایندھن آٹا دال چاول کہاں سے آئے گا؟ مثال امریکہ اور برطانیہ کی دیتے ہو مگر ان کی معیشتوں سے تقابل نہیں کرتے! کہاں وہ حقیقی امیر رئیس کہاں ہم کنگال، پیٹ میں اگر گڈگورننس کا حقیقی دردِزہ اٹھ ہی رہا ہے تو بھائی! سارے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں ہائی کورٹ بٹھا دو انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کر دو تاکہ انصاف اور عمل کی کارکردگی بہتر ہو جائے۔ اسمبلیوں کی تعداد بڑھا کر قانون کو نئے نئے چہرے دینے کی ضرورت نہیں۔ قانون تو ملک بھر میں یکساں ہونا چاہئے البتہ عملدرآمد کرنے والے ادارے چاہے جتنے بھی ہو جائیں جیسے قبلہ ایک ہوتا ہے، جماعتیں بے شمار! اگر صحیح معنوں میں ملک کی خدمت مقصود ہے تو مختصر ایجنڈا یہ ہے کہ غسل اور وضو کرو نیت ٹھیک کرو امامت کرانے اور ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنانے میں کہیں نماز کا وقت ہی قضا نہ ہو جائے! فرماتے ہیں صوبوں کی تقسیم عوامی مطالبہ ہے! ہرگز نہیں۔ یہ چند نمائشی اداکاروں اور وڈیروں کی نالائق اولادوں کے پیٹ کی آواز ہے عوام کو تو برگشتہ کیا جاتا ہے۔ ہاریوں مزارعوں اور زیر اثر نچلے طبقے کے جلوس میں لگے چند نعروں اور صوبائی نفرت کی چتا پر چڑھائی وقتی اشتعال کی دیگوں میں پکے خوان بانٹنے سے صوبوں کی ضرب تقسیم کا جواز نہیں نکلتا۔ عوامی آواز تو فقط یہ ہے بجلی دو، روزگار دو، کوئی ان سے پوچھے میاں! نئے صوبے بنانے سے بجلی میں اضافہ ہو گا؟ مہنگائی کم ہو گی؟ روزگار بڑھے گا؟ ایسا کچھ نہیں ہو گا البتہ دشمنوں کے عزائم اور مولانا ابوالکلام آزاد کی پشین گوئی پورا ہونے میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی!