صدر جوڈیشل کمشن کی سفارشات مسترد کر سکتا ہے نہ وزیراعظم سے ایڈوائس لے سکتا ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (این این آئی / ثناءنیوز / نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس انور کاسی اور جسٹس ریاض کے درمیان سنیارٹی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ صدر کو جوڈیشل کمشن کی سفارشات رد کرنے کا اختیار نہیں ¾ صدر معاملے میں وزیراعظم سے بھی ایڈوائس نہیں لے سکتا۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تقرری سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں عدالت عظمی کے چار رکنی بنچ نے کی۔سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے اٹارنی جنرل کے پیش نہ ہونے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے استفسار کیا اٹارنی جنرل کہاں ہیں ؟انہوں نے حکومتی جواب جمع کرانا تھا، جب جسٹس خلجی عارف حسین کو کورٹ ایسوسی ایٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل آفس بند ہے تو انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس نے واضح کردیا تھا کہ اہم کیسزکی وجہ سے عدالت جمعرات کو کام کرےگی بعد میں عدالت کی جانب سے طلب کئے جانے پر اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں کوئی سقم نہیں تھا، ہائی کورٹ روسٹر کے مطابق اس وقت انور کاسی سینئر ترین جج تھے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جسٹس ریاض احمد کی عدم موجودگی میں سینئر جج انور کاسی تھے جو کمیشن کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے علم میں لائیں کہ جسٹس ریاض 22 اکتوبر کو ملک میں نہیں تھے ممکن ہے یہ حقیقت انہیں نہ بتائی گئی ہو جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ بات جاننے کے بعد صدر کوئی حل نکال لیں گے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ واضح رہے کہ اس بینچ کے سامنے کسی کی سنیارٹی کا معاملہ نہیں ، عدالت نے کہا کہ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے تصدیق کر دی ہے کہ جسٹس ریاض احمد 5 سے 29 اکتوبر تک بیرون ملک تھے۔جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ صدر کو جسٹس ریاض کے ملک سے باہر ہونے کی بات بتائی ہی نہ گئی ہو، صدر کا عہدہ بہت عزت والا ہوتا ہے اور وہ ریاست کے سربراہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ قانون کے مطابق فیصلہ ہو جائے اس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ جوڈیشل کمشن نے صدر کو درست حقائق نہیں بتائے۔ سماعت کے دور ان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چار سوالات اٹھائے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا جوڈیشل کمشن کی تشکیل درست تھی؟ دوسرا سوال تھا اگر جوڈیشل کمشن کی تشکیل درست نہ تھی تو سفارشات کی حیثیت کیا ہوگی اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ یہ بھی بتایا جائے کہ غیر حاضر رکن اگر حاضر ہوتا تو اس کی رائے سے مجموعی فیصلے پر کیا فرق پڑتا؟ تیسرا سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم کی بھجوائی گئی سمری پر صدر کسی بھی وجہ سے تقرری روک سکتا ہے ؟ چوتھا سوال تھا کہ اگر آئین میں ان سوالات کے بارے میں کوئی شق موجود نہیں توکیا راستہ ہو سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا آپ نے یہ سوالات دے کر کیس کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ کیس ان ہی سوالات کے گرد گھومتا ہے وہ حکومت کی تحریری ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ نئی قانون سازی کے بعد ججوں کی تقرری کے معاملے میں صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں رہا۔ صدر اس معاملے میں وزیراعظم سے بھی ایڈوائس نہیں لے سکتا۔ پارلیمانی کمشن سفاشات پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کا پابند ہوتا ہے۔بعد ازاںعدالت نے جسٹس انور کاسی اور جسٹس ریاض کے درمیان سنیارٹی کا ریکارڈ طلب کر تے ہوئے مزید سماعت (آج) جمعہ تک ملتوی کر دی۔