کرکٹ بورڈ کی حکومت پنجاب سے لڑائی‘ نقصان کس کا....؟
کرکٹ میچز لاہور میں ہوں، یا سیالکوٹ میں یا پھر مستقبل کے کھلاڑی گوجرانوالہ سٹیڈیم میں صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں یا پھر فیصل آباد میں.... کوئی نہیں جانتا کہ کسی بھی وقت کوئی بھی سٹیڈیم بند ہوسکتا ہے۔کھلاڑیوں کو کھیل سے روکا جا سکتا ہے اور قائداعظم ٹرافی کے میچز کا انعقاد کہاں ہوگا‘ قومی ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹ لاہور میں ہوگا یا کراچی میں کوئی بھی اس بارے میں حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ عجب بے چینی اور اضطراب کی کیفیت ہے، کھلاڑی اپنے کھیل پر توجہ دیں یا پھر اپنے میچوں کے مقامات کے حوالے سے پریشانی کا سامنا کریں۔ قصہ یوں ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پنجاب حکومت کے مابین خراب تعلقات کی وجہ سے قومی سطح کی کرکٹ کے مقابلے متاثر ہورہے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئر مین اور ان کی ٹیم کے اراکین اس حوالے سے حکومت پنجاب پر شدید تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔بورڈ حکام کا موقف ہے کہ لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی تقریب کیلئے پنجاب حکومت نے راولپنڈی سٹیڈیم مانگا تھا گراﺅنڈ کی خرابی کے پیش نظر کرکٹ بورڈ نے انکار کردیا جس کے بعد موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کرکٹ بورڈ تو بنگلہ دیش کے دورہ پاکستان ملتوی ہونے کا الزام بھی شہباز شریف انتظامیہ پر عائد کرتا ہے۔
بورڈ حکام کے ان بیانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کھیل دشمن فیصلے کر رہی ہے لیکن کیا ایسی حکومت جو صوبے میں پنجاب سپورٹس فیسٹیول اور پنجاب یوتھ سپورٹس فیسٹیول کے انعقاد میں مصروفِ عمل ہے جس میں بین الاقوامی سطح کے مقابلے بھی ہورہے ہیں وہ حکومت ملک کے مقبول ترین کھیل کے ساتھ دشمنی کیوں کرے گی۔اس سے پہلے قذافی سٹیڈیم کی بیرونی دیوار گرائے جانے کو بھی سیاسی رنگ دیا گیا۔
دوسری طرف حکومت پنجاب خود کو کھیل دوست اور نوجوانوں کی ہمدرد قراردیتی ہے لیکن اعلیٰ حکومتی شخصیات کے پروٹوکول کیلئے ہیلی کاپٹرز کا گراﺅنڈ میں اترنا اور مقامی انتظامیہ کے سخت رویے کے باعث مختلف مقامات پر میچز کو روک دینے کے اقدامات کو کسی بھی لحاظ سے کھیل دوست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایسے اقدامات سے نقصان تو صرف اور صرف نوجوان کھلاڑیوں کا ہی ہوتا ہے۔با اختیار طبقہ تو زبانی جنگ میں مصروف ہے اس ساری صورتحال میں پاکستان کرکٹ بورڈ اس معاملے کو درست انداز میں سلجھانے میں ناکام نظر آتا ہے کیا میچوں کے مقامات میں تبدیلی مسئلے کا حل ہے؟ایک طرف تو پی۔سی۔بی حکام کو یہ خوش فہمی ہے کہ ان کی کمیونیکیشن اتنی اچھی ہے کہ وہ بیرونی دنیا کو بھی قائل کررہے ہیں اور اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں لیکن دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمران جماعت سے تعلقات کو بہتر بنانے اور انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کے بجائے ”میڈیاوار“ کے فارمولے پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔کرکٹ بورڈ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے کہ پنجاب حکومت تو کھیل دشمن ہے لیکن سندھ حکومت انہیں ٹوئنٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کیلئے کلیئرنس کیوں نہیں دے رہی۔ذکاءاشرف ملکی کرکٹ کے مفاد میں دنیا بھر کے کرکٹ بورڈز سے تو بات کرسکتے ہیں لیکن شہباز شریف سے کھچے کھچے کیوں ہیں؟
حکومت پنجاب کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ کرکٹ مقابلوں میں رکاوٹ بننے والے افسران کے خلاف میرٹ پر کارروائی کرے اور راولپنڈی سٹیڈیم کے انکار کو انا کا مسئلہ نہ بنائے۔
کرکٹ بورڈ حکام بھی پیپلز پارٹی کی عینک کو اتار کر ملک کے مقبول ترین کھیل کے معاملات کو چلائیں۔ کیا ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا خواب صوبائی حکومتوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بغیر شرمندہ¿ تعبیر ہو سکتا ہے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکاءاشرف صدر پاکستان آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اس حوالے سے پنجاب حکومت کے ساتھ اختلافات ہیں اور حکومت پنجاب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کے ہر عمل میں ملک کی حکمران جماعت کی ہمدردی جھلکتی ہے۔ بورڈ چیئرمین کے پاس عہدہ کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کی تکمیل یا وہاں بیٹھ کر سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ معاملات میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ وہ خالصتاً پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما¶ں سے دوستی ضرور نبھائیں لیکن کھیل کے واقعات‘ معاملات میں سیاست سے گریز کریں۔ یہ بات طے ہے کہ کرکٹ کے کھیل کی عوامی مقبولیت کے پیش نظر کوئی بھی حکومتی شخصیت اسکی سرگرمیوں کو روکنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔