شوگر ملز اور حکومت کے درمیان معاملات طے نہ ہونے پر گنے کی کرشنگ تاخیر کا شکار
اسلام آباد (ثناء نیوز)ملک بھر میں شوگر ملز ایسوسی ایشن اور حکومت کے درمیاں چینی برآمد کرنے اور دیگر مراعات کا معاملہ طے نہ پانے کی وجہ سے تا حال کرشنگ شروع نہ ہوسکی اور لاکھوں کسان وقت پرگنا فروخت نہ ہونے اور آئندہ فصل کے لیے زمین فارغ نہ ہونے کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس پونے چھبیس لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پرگنا کاشت ہوا اور پیداوار 5کروڑ 53ملین ٹن ریکارڈ ہوئی۔ لیکن ماہرین کے مطابق رواں سال گنے کی کاشت پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے۔سندھ آباد کار بورڈ کے چیئرمین عبدالمجید نظامانی کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق شوگر ملز والے سندھ میں اکتوبر کے آخری ہفتے اور دیگر علاقوں میں نومبر کی ابتدا میں کرشنگ شروع کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن تاحال کرشنگ شروع نہیں ہوئی۔ شوگر ملز بڑے بڑے سیاستدانوں کی ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ اس وقت ملک بھر میں چھیاسی شوگر ملز ہیں اور ان کی مجموعی پیداوار کی گنجائش نوے لاکھ ٹن ہے۔ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 42 لاکھ ٹن ہے اور پیداوار کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر ملز والے حکومت سے کاشتکاروں کے نام پر مراعات تو لیتے ہیں لیکن کاشتکاروں کو خریدے گئے گنے کی قیمت دینے کو تیار نہیں۔عبدالمجید نظامانی کہتے ہیں کہ کرشنگ شروع نہ ہونے کی شگر ملز والے حکومت کی جانب سے گنے کی کم از کم فی من قیمت 170 روپے مقرر کرنا بتاتے ہیں۔ ادھر ایگری فورم پاکستان نامی تنظیم کے چیئرمین محمد ابراہیم مغل کہتے ہیں کہ شوگر ملز مالکان دوگنے منافع کے چکر میں کرشنگ میں جان بوجھ کر تاخیر کرتے ہیں۔ اگر نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک سو کلو گرام گنے سے آٹھ کلو چینی پیدا ہوگی تو وہ دسمبر میں دس کلو اور جنوری میں گیارہ کلو چینی پیدا ہوگی اور اس چکر میں وہ ملز وقت پر نہیں چلاتے۔ دنیا میں کہیں بھی زراعت پر جنرل سیلز ٹیکس نہیں لیکن پاکستان میں پچاس ارب روپے بیج، کھاد، ڈیزل اور بجلی کی مد میں کسان سے ٹیکس لیا جاتا ہے۔ گنے کی کاشت پر گزشتہ برس کی نسبت رواںسال 37فیصد پیداواری قیمت بڑھ گئی ،ہمیں بھارت کے کسان جتنی ٹیکس چھوٹ دی جائے تو ہم ایک سو بیس روپے فی من گنا دینے کو تیار ہیں۔