پیپلز پارٹی میں خودکشی خود بخودکشی
پیپلز پارٹی میں خلفشار کی خبریں آتی چلی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے خواب آور گولیاں کھا کر خودکشی کی ناکام کوشش کی۔ دوسرے دن اس نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خودکشی نہیں کی۔ چیف وہپ اسلام شیخ کے سخت روئیے سے ڈپریشن کا شکار ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے منظور وٹو اور آصف ہاشمی کی تلخ کلامی کا نوٹس لے لیا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزام لگائے۔ سچے اور پکے غضنفر علی گل، عزیزالرحمن چن، امتیاز صفدر وڑائچ کو ہٹایا گیا۔ مجھے رانا آفتاب جیسے دبنگ اور مخلص کو ہٹانے کا بھی دکھ ہے۔ میاں شمس پرانا جیالا ہے اُسے آگے لانے میں ڈاکٹر بابر اعوان کا کردار ہے اسے پیچھے کرنے میں کیا کردار ہے۔ فواد چودھری کو ترجمان بنانے کا راز یہ ہے کہ وہ جنرل مشرف کا بھی ترجمان تھا۔ منظور وٹو چودھری صاحبان کے اشاروں پر چلیں گے تو بھی سرخرو نہ ہو سکیں گی۔ جمشید دستی نے ہر قیمت پر حنا ربانی کھر کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ کراچی اور پاکستان کے لئے محرم میں رحمن ملک کے غیر ضروری اقدامات پر خورشید شاہ نے احتجاج کیا۔ تو رحمان ملک نے کہا کہ مذہبی امور کے وزیر کا کام صرف حج کرانا ہے میں نے کبھی حج کرپشن پر نہیں اعتراض کیا تو خورشید شاہ کو بھی میرے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ مرزا ذوالفقار نے بھی رحمن ملک کو غدار کہنے کا انجام دیکھ لیا۔ خورشید شاہ کو عبرت پکڑنی چاہئے۔
خورشید شاہ کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی سُن لیجئے کہ خودکشی کے تنازعے میں ملوث سینیٹر سحر کامران سے خورشید شاہ کے گھریلو تعلقات ہیں۔ وہ ان کے حامی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خامی اسلام شیخ میں ہے۔ سحر کامران جدہ میں پرنسپل ہیں۔ کسی تعلیمی ادارے کی ہوں گی۔ اُسے تھوڑی دیر کے لئے پاکستان لا کے سینیٹر بنوایا۔ وزیر نہ بنوا سکے مگر وزیر کالونی اسلام آباد میں گھر لے کر دیا۔ میں اس وزیر کالونی کو سرکاری وزیرستان کہتا ہوں۔ یہاں سیاسی آپریشن کا خطرہ رہتا ہے مگر اب یہاں پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
وہ کہتی ہیں مجھے خودکشی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ خودکشی نہیں۔ یہ تو ”خود بخودکشی“ ہے۔ اسلام شیخ کے ”رویے“ سے ڈیپرس تھی۔ نیند نہیں آ رہی تھی۔ سہیلی نے خواب آور گولی دی۔ غنودگی سی ہوئی۔ غنودگی نیند سے زیادہ مزیدار ہوتی ہے۔ زیادہ مزا لینے کے لئے دو تین گولیاں اور کھا لیں۔ کوئی مجھے اٹھا کے ہسپتال لے آیا۔ بستر پر لٹایا گیا اور میں ہوش میں آ گئی۔ انسان بہت کمزور ہوتا ہے۔ ویسے میں بہت مضبوط عورت ہوں۔ میری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ جسے اب بند ہونا چاہئے۔ میری زندگی سکینڈلز سے خالی ہے بلکہ خالم خالی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری کامیاب زندگی کے پیچھے میرے شوہر کی طاقت ہے اور شوہر کی طاقت کے پیچھے کس کی کمزوری ہے؟ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ایک ناکام آدمی کے پیچھے کئی عورتوں کے ہاتھ ہوتے ہیں کیا یہ بات الٹا کر عورت کی کامیابی اور ناکامی کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے البتہ اس بات سے فہمیدہ مرزا کے پریشان ہونے کا اندیشہ ہے۔ سحر کامران نے کہا کہ آصف زرداری نے چھوٹی بہنوں کی طرح ہمیشہ میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے۔ فریال تالپور یقیناً خوش ہوئی ہو گی کہ چلو ایک تو اور بھی ہے یہ بھی سحر صاحبہ نے بتا دیا ہے کہ شاہ عبداللہ کی بیٹی میری ذاتی دوست ہے۔ یعنی اس میں کسی شاہ زادے کا حصہ نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں۔ میں چار بین الاقوامی تھنک ٹینکس کی ممبر ہوں۔ سینٹ میں ان کی خاموش پرفارمنس دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ وہ وہاں کیا کرتی ہونگی۔ یہ کہہ کر انہوں نے مایوس کیا ہے کہ میں نے دو حج کئے ہیں۔ جدہ میں رہ کر صرف دو حج ورنہ لوگ اسلام آباد میں رہ کر دو سو سرکاری حج کر چکے ہیں۔ اس کا اس ضرب المثال سے کیا تعلق ہے۔ دو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ انہوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ ہر ماہ عمرہ کرتی ہوں۔ ہمارے حکمرانوں اور حکمران جماعت کے لوگوں اور عورتوں کا بس چلے تو وہ ایک ہفتے میں دو عمرے کریں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح اقتدار کی عمر بڑھ جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے مجھے میک اپ اور جیولری کا شوق نہیں۔ تو پھر اور کیا شوق ہے؟ مجھے ملک کا ایک اعلیٰ اعزاز تمغہ¿ امتیاز ملا ہے۔ میں نے بیرون ملک پاکستان کا تشخص اجاگر کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ لوگ اندرون ملک پاکستان کا تشخص برباد کرنے کے ماہر ہیں۔ تو جناب یہ تھیں سحر کامران جنہوں نے خودکشی کی کوشش نہیں کی۔ اگر خدانخواستہ وہ یہ کوشش کر لیتیں تو بے چارے صحافیوں کا کیا بنتا۔ میری گزارش ہے کہ سینٹ کی کارروائی کے حوالے سے کبھی ان کا نام میڈیا پر نہ آیا تھا۔ براہ کرم وہ سینٹ میں بھی دو چار خواب آور گولیاں کھا کے جایا کریں۔ جمشید دستی کے لئے دیکھتے ہیں کہ وہ کب تک ڈٹے رہتے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں مستعفی ہوئے مگر پھر جیت گئے۔ وہ حنا ربانی کھر کے مقابلے کھڑے نہ ہو کر انہیں ہرانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا مقابلہ حنا ربانی کھر سے نہیں فریال تالپور سے ہے میرا ووٹ وہاں ہوا تو میں جمشید دستی کو دوں۔ مگر میرا ووٹ وہاں نہیں ہے۔ تو میں ووٹ حنا ربانی کھر کو دوں گا۔
متروکہ وقف املاک بورڈ کے چیئرمین آصف ہاشمی نے منظور وٹو پر وہی الزام لگایا۔ جو وہ ان پر بھی لگا سکتے ہیں۔ آصف ہاشمی کو افسوس ہے کہ جو کام میں خود بہت محنت اور مہارت سے کر رہا ہوں وہ کوئی دوسرا کیوں کرے۔ مگر منظور وٹو بھی لٹو کی طرح گھومتے ہیں۔ نجانے سیاسی وفاداریاں بلکہ بے وفائیاں تبدیل کرنے والے کو لوٹا کیوں کہتے ہیں۔ لٹو کیوں نہیں کہتے۔ پہلی دفعہ نوازشریف نے منظور وٹو کو لوٹا کہا تھا جبکہ لوٹے بنانے کی سیاسی صنعت نوازشریف نے چھانگا مانگا میں لگائی تھی۔ منظور وٹو کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے 48 گھنٹے میں تین دفعہ تبدیل ہو کے دکھا دیا عمران تو یونہی تبدیلی کے نعرے لگاتا ہے۔ تبدیلی یہ ہوتی ہے اور یہ بات گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنی چاہئے۔
منظور وٹو پنجاب اسمبلی کے لئے بھی الیکشن لڑیں گے۔ اس کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کی خواہش انہیں چین نہیں لینے دے گی۔ یہ ٹکٹ پارٹی کے ارادوں کو بے نقاب کر دے گا۔ ق لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے لئے دھوکہ ہو گا۔ وٹو صاحب اتنے جیالے نہیں۔ اتنے مسلم لیگی بھی نہیں۔ وہ حامی بھی نوازشریف کے تھے اور باغی بھی انہی کے تھے۔ یہ دھوکہ نوازشریف کے لئے بھی ہے۔ مگر چودھری صاحبان اتنی آسانی سے دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ بڑے چودھری صاحبان کی موجودگی میں صدر زرداری نے کہا کہ منظور وٹو، مونس الٰہی کی ہدایات پر چلیں گے۔ مونس اپنے نام کے ساتھ چودھری نہیں لکھتا۔ صدر زرداری کی سیاست کبھی کبھی خود اُن کی اپنی سمجھ میں نہیں آتی اور چودھری شجاعت کو سمجھانا مشکل ہے۔ وہ صدر زرداری سے بڑے سیاستدان نہیں ہونگے مگر وٹو سے تو بہت بڑے سیاستدان ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں پنجاب اسمبلی میں 18 ووٹوں سے پیپلز پارٹی کے 108 ووٹوں کے لئے ففٹی ففٹی کا فارمولا بی بی سے منوا لیا تھا۔ تب مقابلہ شریف برادران کے ساتھ تھا۔ میں نے ان سے پوچھ لیا کہ اب کس کے ساتھ مقابلہ ہے اور چودھری برادران کے ساتھ ففٹی ففٹی کس بنیاد پر ہو گا۔ یہ تو نہیں کہ کام چودھری صاحبان کریں اور انعام منظور وٹو لے جائیں۔ نجانے کیا سوچ کر صدر زرداری نے منظور وٹو کو پنجاب کا صدر بنایا ہے۔ آصف ہاشمی کی یہ جرات تو نہیں کہ وہ ذاتی طور پر وٹو صاحب سے تلخ کلامی کرے۔ گیلانی صاحب کے بعد راجہ صاحب کے ساتھ اتنی جلدی کوئی ڈیل ابھی نہیں ہوئی ہو گی۔ دھیان صدر زرداری کی طرف جاتا ہے۔ وہ سودے بازی کی سیاست میں کامیاب ترین ہیں۔ وہ اپنے حریفوں اور حلیفوں سے ایک جیسا سلوک کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے فیصلے فاصلے پیدا کرتے ہیں۔ وہ فاصلوں کو بھی فیصلہ بنانے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو صرف ڈاکٹر بابر اعوان بچا سکتا ہے۔ اب جوڑ توڑ کی بجائے سیاست میں جرات اور فراست کی ضرورت بھی ہے۔ چند دن پہلے اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں جنرل ضیاءالحق اور نوازشریف کے ساتھ منظور وٹو کھڑے ہیں۔ ہماری سیاست میں یہ بات عام ہے مگر خاص طور پر تصویر صدر زرداری کو کیوں دکھائی گئی۔ وہ تو منظور وٹو کے زیادہ دوست بن گئے ہونگے۔ حنا ربانی کھر کے لئے بھی انہوں نے یہ تصویر دیکھ لی ہو گی جس میں حنا بی بی جنرل مشرف اور شوکت عزیز کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی ہیں۔ فواد چودھری کا بھی یہی حال ہے۔ لوگ جنرل ضیاءاور جنرل مشرف میں فرق کرتے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ میں بھی جنرل ضیا کو جنرل مشرف سے اچھا سمجھتا ہوں مگر جرنیل کی حیثیت میں مارشل لا لگانے کے حوالے سے دونوں ایک جیسے ہیں مگر ماضی کو چھوڑو۔ آگے کی طرف دیکھو۔ وہی لوگ آگے جانا چاہتے ہیں جو پیچھے مڑ کر بھی دیکھتے ہیں۔ اس طرح آدمی پیچھے رہ جاتا ہے۔ وہ تو جنرل کیانی پر بھی شک کرتے ہیں۔ جبکہ وہ یقین محکم کے آدمی ہیں۔ جمہوریت بچانے کی بات بھی ٹھیک ہے۔ ملک بچانا اور اس کا نظریاتی تشخص بچانا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ یہ خبر بھی گرم ہے کہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی کامیابی دیکھ کر کہ تحریک انصاف سے لوگ ق لیگ میں آ رہے ہیں۔ صدر زرداری نے منظور وٹو کو پنجاب کے میدان میں اتار دیا ہے۔ اب انہیں صدر زرداری سے بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔