• news

نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی....؟

 گزشتہ روز نوائے وقت کے سپورٹس پیج پر ایک خبر تھی جس کے مطابق نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں صحافیوں کے داخلہ پر پابندی لگادی گئی ہے۔خبر کے مطابق یہ قدم کرکٹرز کے غیر ضروری انٹرویز کو روکنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے جنرل منیجر میڈیا کے حوالے سے یہ بیان بھی خبر کا حصہ تھا کہ این ۔سی۔اے میں غیر ضروری افراد کا داخلہ عام ہوگیا تھا اکثر اوقات کھلاڑی کسی بھی نیوز ایجنسی اور رپورٹر سے بات نہیں کرتے تھے لیکن میڈیا میں کھلاڑیوں کے نام کے انٹرویوز شائع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ جی۔ایم۔ میڈیا ندیم سرور کا ایک موقف یہ کہ دوسرے روز جب ہم نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کے انٹرویوز کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے نہ ہی اکیڈمی میں صحافیوں کے داخلہ پرپابندی لگائی گئی ہے۔اکیڈمی میں اگر کسی صحافی نے جانا ہے تو وہ ہمارے ساتھ رابطہ کرے ہم وہاں موجود متعلقہ افراد کو آگاہ کردیںگے تو کوئی مسئلہ نہ ہوگا،ندیم سرور یہ بھی فرماتے ہیں جب کبھی ایکٹویٹی ہوتی ہے تو ہم صحافیوں کو خود دعوت دیتے ہیں اور ہر طرح سے سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”سجال کے صدر سید علی ہاشمی کا اس مسئلے پر کہنا ہے کہ جب کرکٹ بورڈ کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ خبریں شائع کروانے اور رکوانے کیلئے فون بھی کرتا ہے اور اس معاملے میں وقت کا بھی خیال نہیں رکھتا۔ صحافیوں نے ہمیشہ کرکٹ بورڈ کے ساتھ تعاون کیا ہے لیکن یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ صحافیوں کے داخلے کو شرائط کا پابند کر دیا جائے۔ یہ پابندی ختم ہونی چاہئے۔ اگر بورڈ کو صحافیوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے مسئلہ ہے تو ان کی نمائندہ تنظیم سے رابطہ کرناچاہئے۔“
ان دنوں ملک میں ویسے بھی پابندیوں کا رواج ہے۔موٹر سائیکل سواروںپر پابندی مخصوص اوقات میں موبائل فون کو مفلوج کر دینا قابل ذکر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ حکام کو رابطے ختم کرنے کا یہ فارمولا اس قدر پسند آیا ہے کہ انہوں نے صحافیوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اب اگر پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ آپ کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتا دیکھیں، ان کی ٹریننگ کا جائزہ لے سکیں اور اگر کوئی دل جلا کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ حکام کے رویوں سے شاکی کسی کو حال دل سنا دیتا ہے تو اسمیں مظلوم صحافیوں کا کیا قصور ہے۔ رابطے کے ذرائع مفلوج کرکے خبروں کا سلسلہ تو روکا نہیں جاسکتا پھر ایسی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔بورڈ حکام پابندیوں کے بجائے اپنے اندرونی معاملات کو بہتر کریں تو ایسے اقدامات کی ضرورت نہ رہے گی۔صحافیوں کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ صرف کرکٹ بورڈ کا طواف نہ کرتے رہیں۔ لاہور میں کھیلوں کی سرگرمیاں کرکٹ بورڈ تک ہی محدود نہیں ہیں۔ صحافی گھومتے پھرتے رہیں گے تو بورڈ کو کسی کو غیر ضروری کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔
اکیڈمی میں کھلاڑیوں کی روزانہ کی سرگرمیوں کی کوریج کیلئے مخصوص اوقات بھی مقرر کیے جاسکتے ہیں۔اگر کرکٹ بورڈ صحافیوں کی نقل و حرکت سے اتنا ہی تنگ ہے تو پھر قذافی سٹیڈیم میں بھی داخلہ مشروط کردے لیکن کیا ایسے اقدامات سے خبروں کا سلسلہ رک جائے گا؟

ای پیپر-دی نیشن