رنگِ چمن
دنیائے اسلام اور خصوصاً پاکستان میں حالات کی سنگینی مجھ جیسے حساس لوگوں کو مضطرب کردیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی امید اور حوصلہ دیتی ہے۔ قوموں کی تاریخ بڑی بڑی تلخیوں سے بھری ہوئی ہے مگر ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی قوم اس قدر نفاق اور انتشار کا شکار ہوجائے کہ جھوٹ، بددیانتی اور کرپشن اس کی شناخت بن جائے۔ وہ حال سے بے فکر اور ماضی سے بے نیاز ہوکر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جائے۔ آپ پاکستان میں مذہبی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور قانونی ابتری کاجائزہ لیں تو ایک سے ایک شعبہ اپنے محافظوں کے ہاتھوں چیختا چلاتا ہوا نظر آئےگا۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں مگر ہمیں اس جرم کا احساس و ادراک ہی نہیں۔
مذہبی عمائدین نے سب سے بڑھ چڑھ کر تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تھا کیونکہ یہ ملک مذہب اسلام کے نام پر حاصل کیا جارہا تھا۔ اسکی اساس میں اس ریاست مدینہ کا تشخص تھا جس نے دنیا کی مطلق العنان بادشاہتوں کی رسم جہاں بانی کے برعکس اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کی بنیادیں استوار کیں۔ جس نے دنیا میں پہلی مرتبہ شخصی آمریتوں کی جگہ پیغمبر انسانیت کی سرپرستی میں شورائی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا۔ اسلام نے دنیائے انسانیت کو سب سے پہلے ویلفیئر سٹیٹ کا تصور دیا۔ وہ ویلفیئر سٹیٹ جس کی سرحدیں حجاز و یمن سے لےکر افریقہ ایشیاءاور یورپ تک پھیلی ہوئی تھیں اور اسکے حکمران خلفائے راشدین تھے۔ سیدنا عمرؓ کے دور حکمرانی میں وہ وقت بھی آگیا جب تین براعظموں پر پھیلی ہوئی اس عظیم ترین مملکت اسلامی میں زکوٰة لینے والوں کو تلاش کیا جاتا تھا۔
جہاں حکمران عادل، متقی اور عوام کے خیر خواہ ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم بھی کھل کر برستا ہے مگر جب حکمران خود عوام کے حقوق سلب کرنے اور ان کی کمائی کو لوٹنے والے بن جائیں تو یہ اس ملک اور معاشرے پر اللہ کی ناراضگی اور عدم التفات کی علامت ہے۔ نیت اچھی ہو تو نظام بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ جس عرب سوسائٹی میں حضورنے اسلامی ریاست کی بنیادیں رکھیں اور صحابہ کرامؓ نے اس ریاست کو مثالی انسانی معاشرے میں تبدیل کیا وہ سوسائٹی جہالت خونخواری اور باہمی دشمنیوں کے بدترین ریکارڈ کی حامل تھی۔ پندرہ بیس سالوں میں اس قدر تبدیلی آئی کہ کسی طاقتور کو کسی کمزور کا ناحق خون کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ کوئی میلی آنکھ سے کسی خاتون کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا۔ یہ تب ہی ممکن ہوا کہ حضرت عمرؓ خود محلات اور آرام دہ خواب گاہوں کی بجائے زمین کے فرش پر اینٹ کے تکیے پر سر رکھ کر سوتے تھے۔ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے سرکاری خزانے سے ایک لقمے کے روادار بھی نہیں تھے بلکہ ضرورت مندوں کو غلے کی بوریاں رات کے اندھیرے میں اپنی پیٹھ پر رکھ کر فراہم کرتے تھے۔ حیرت ہوتی ہے جب آج اسلامی ممالک کے سربراہان کی اکثریت اپنی قوم سے خطاب کے دوران ان اسلاف کی مثالیں دیتے ہیں مگر اپنے کردار پر شرماتے نہیں۔
یہ تھا وہ جذبہ جو پاکستان کی تحریک میں کارفرما تھا اور اسی لئے یہاں تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں اور مال و متاع قربان کردیا۔ آج وہی مذہبی اور دینی خانوادے ہیں جو باہم دست و گریبان ہیں۔ اپنا اپنا مذہب، اپنا اپنا مسلک اور اپنے اپنے حلقہ ہائے ارادت۔ اس مذہبی انتشار کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ لوگ اس رسول رحمت کے کلمہ گو اور انکی شریعت کے تابع ہیں جنہوںنے دشمنوں کو محبت اور ایثار کے جذبے سے اپنا بنایا۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کےخلاف اس قدر عداوت اور کینہ ہے کہ انہیں غیر مسلموں سے ملتے ہوئے کوئی جھجک نہیں ہوتی مگر دوسرے مسلک کے لوگوں کو گلے لگاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے سیاسی قائدین کے اطوار و عادات کا مطالعہ کریں انہیں ہر حالت میں اپنا اقتدار عزیز رہتا ہے۔ ملک کس طرف جارہا ہے۔ قوم کس قدر پریشان ہے، عوام کو کیا کیا دکھ کھائے جارہے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان اس معاشرے کو چھوڑ کر بھاگنے کےلئے کتنے فکر مند ہیں۔ انہیں ان میں سے کسی سوال پر توجہ نہیں دینی۔ انکے سامنے صرف ایک سوال ہے اور وہ یہ ہے کہ انکے ہاتھ میں اقتدار کب اور کیسے آئے گا تاکہ ملکی وسائل کی لوٹ مار کے ذریعے وہ اندرون اور بیرون ملک اپنی تجوریاں بھرسکیں۔ حصول اقتدار کے اس کھیل میں ہمارے عوام بھی ان کے حصہ دار ہیں جو انہیں گردوپیش سے بے نیاز ہوکر بار بار ملکی تقدیر پر مسلط کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ ایک نظر اپنے ملک کی تعلیمی اور سماجی حالت پر ڈالیں آپ کو بیسوﺅں تعلیمی نصاب ملیں گے جو ہمارے نو نہالوں کو پڑھائے جارہے ہیں، قسم قسم کے نصاب پڑھ کر جوان ہونے والی نسل بھانت بھانت کی بولیاں نہیں بولے گی تو اور کیا کرے گی؟ ہمارے بعض تعلیمی اداروں میں اس قومی زبان کے ذریعے حصول علم ایک کمزوری اور احساس کمتری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں صوبائیت اور لسانیت قومیت پر فائق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پختون، پنجابی، بلوچی، کشمیری اور سرائیکی کہلانے پر تو فخر محسوس کرتے ہیں مگر پاکستانی کہلانے پر نہیں۔ بلکہ یہ وہ واحد ملک ہے جس کے بعض علاقوں میں اس وقت پاکستانی پرچم لہرانا بھی جرم بن چکا ہے اور وہاں پاکستان کا نام لینا بھی قابل گردن زدنی فعل قرار پاتا ہے۔ آج کل انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہورہا ہے ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت ووٹ لیتے وقت عوام کے مسائل کے حل کا وعدہ کرتی ہے مگر جب اقتدار میں آتی ہے تو ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کرتی ہے۔ پاکستان پر غیرملکی قرضوں کی شرح کو دیکھیں تو اس مقابلے کی سمجھ آجائےگی۔ مرحوم ضیاءالحق کے دور میں بعض مدات میں حاصل کیا جانےوالا قرض آج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ مشرف کے دور میں ہمارے ماہرین معیشت سر پر ہاتھ رکھ کر روتے تھے کہ قرضوں کا حجم دگنا ہوگیا ہے مگر اس حکومت کا کارنامہ دیکھیں کہ اس نے صرف 4 سالوں میں اس حجم کو مزید دگنا کردیا ہے۔ اسکے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں۔ غربت میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے بے روزگاری کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ توانائی کا بحران ہماری معیشت کی کمر توڑ چکا ہے۔ ملکی سرمایہ چھوٹے پڑوسی ممالک میں منتقل ہورہا ہے۔ یہ قوم اس لئے بھی دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی کہ اسے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے سے بھی سازش کی بو آتی ہے اور ہمارے حکومتی عمائدین نے اعلان کردیا ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی مائی کا لال ڈیم نہیں بناسکتا۔ جو وزیر پن بجلی کے سستے منصوبے کو سازش کہہ کر مہنگے پٹرول سے بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ کرتا ہے اور عدالت اسے کرپشن اور بددیانتی کا مرتکب ٹھہرا بھی دیتی ہے مگر اسی شخص کو ہمارے ملک کا وزیراعظم بنادیا جاتا ہے۔ یہ سارے احوال ایک زندہ، حساس اور غیرت مند قوم کو جاگنے کے لئے کافی ہیں مگر تاحال اس قوم کی بیداری کے آثار دیکھنے میں نہیں آرہے۔ نہ جانے کتنی نسلیں اس سامراجی نظام حکومت کے شکنجے میں پسیں گی اور کسے تبدیلی کی صبح نصیب ہوگی؟ اسی تبدیلی کی ایک آواز 23 دسمبر کو مینار پاکستان میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بلند کرنے آرہے ہیں۔ پاکستانی قوم انکی اس آواز پر کس قدر لبیک کہتی ہے چند ہفتوں بعد اس کا نتیجہ بھی سامنے آجائےگا۔ بحر حال ہم اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں۔ بقول اقبال ....
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں نکلنے والی