• news

کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے ضروری کیوں؟ ....(آخری قسط )


کالا باغ ڈیم وہ منصوبہ ہے جس سے پاکستان کے چاروں صوبوں کا مفاد وابستہ ہے۔ یہ ڈیم تمام صوبوں کی بنجر زمینوں کو سیراب کرے گا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے روکے گا۔ سارے ملک کو انتہائی سستی بجلی بھی فراہم کرے گا جس سے صرف بجلی کے بلوں میں 4ارب ڈالر سالانہ کی بچت آئے گی۔ ہمارے پاس زر مبادلہ کی کمی ہے۔ ہم خوردنی اشیاءامپورٹ نہیں کر سکتے۔ پانی کی فراہمی سے اربوں ڈالر سالانہ کی معیشت بہتر ہوگی۔ خوراک میں خود کفالت سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تو پھر کیا اسے صرف پنجاب کا ڈیم کہا جائے گا۔ کیا خیبر Pk کو سستی بجلی اور زراعت کےلئے پانی کی ضرورت نہیں۔ اگر کارخانوں کو سستی بجلی مہیا کر سکیں گے تو وہ کم لاگت کی مصنوعات تیار کرکے غیر ممالک کی منڈیوں میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ اس عظیم منصوبے کےلئے صوبوں کا اتفاق رائے ضروری نہیں؟ لیکن اتنا یاد رہے کہ کالا باغ ڈیم کے بغیر وفاق کی بقاءخطرے میں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کچھ جماعتیں صرف میاں نواز شریف کے بغض میں ڈیم مخالف بیان دے رہی ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو قیام پاکستان کے مخالف تھے، وہ ڈیم کی مخالفت برائے مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن حب الوطنی کا دعویٰ کرنے و الوںکا طرز عمل محل نظر ہے۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ صوبوں کے اتفاق رائے سے وفاق مضبوط ہوتا ہے لیکن جب سیاست میں صوبائی اور لسانی تعصب آ جائے تو تدبر کا تقاضا ہے کہ دلیری اور تدبر کے ساتھ فیصلے کئے جائیں۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا محب وطن قوتیں اتنی کمزور ہو گئی ہیں کہ وہ بھارتی لابی کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر قومی منصوبوں سے پہلو تہی کرنا شروع کر دیں؟؟
کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھٹو مرحوم کے حکم سے شروع ہوئی تھی۔ مگر ان کی پیپلز پارٹی اپنے قائد کے اصولوں کو بھلا چکی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شروع میں کالا باغ ڈیم کو سندھ کےلئے نقصان دہ سمجھتی تھیں مگر جب مصطفےٰ کھر کے ذریعے انھیں حقیقت حال کا علم ہوا تو ان کے الفاظ تھے۔ کالا باغ ڈیم کا مخالف پاکستان کا مخالف ہوگا۔ مصطفےٰ کھر برملااظہار کرتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ الفاظ عبداللہ شاہ، نصیراللہ بابر، ذوالفقار مگسی، آفتاب شیرپاو¿، حامد ناصر چٹھہ اور عارف نکئی کے سامنے کہے تھے۔
مورخہ 23جنوری1998کو اخبارات میں اجمل خٹک مرحوم کا بیان شائع ہوا تھا۔
ڈیم کی تعمیر ملکی ترقی کے زمرے میں آتی ہے۔ مل بیٹھ کر معاملہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ پختون خواہ کے مطالبے کے بعد اجمل خٹک نے کہا باقی رہ گیا کالا باغ ڈیم کا سوال تو وہ ایک قومی تعمیر و ترقی اور ملکی سلامتی کے زمرے میں آتا ہے جسے تمام افراد مل کر اکثریتی فیصلہ سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں ہم کسی صورت مخالفت نہیں کریں گے۔ ہماری نواز شریف حکومت سے تمام قومی سلامتی اور پارٹی نظریات کی بناءپر شرائط طے پا چکی ہیں جن سے ہم کسی صورت بھی انحراف نہیں کریں گے اور نہ ہی حکومت کو وعدوں کی خلاف ورزی کی اجازت دیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ ہم خیال کے صدر سینیٹر سلیم سیف اللہ نے کہا کہ جو لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان کے صفحہ اول کے دشمن ہیں اور وہ کسی طرح بھی پاکستان کے خیر خواہ نہیں۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ملک میں پانی کی شدید قلت ہے اور ہم بیدردی سے پانی سمندر میں بہا دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا اگر ہم کالا باغ ڈیم بنا لیں تو صرف 5سال میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آ سکتا ہے۔
گوہر ایوب نے کہا کالا باغ ڈیم سے نوشہرہ کسی صورت نہیں ڈوب سکتا کیونکہ اگر ایسی صورت حال ہوتی تو سب سے پہلے فوج کا ایمونیشن کیمپ، ایئر فورس اور پھر آرمڈ کور کا سنٹر آتا ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم سے خطرہ ہوتا تو سب سے پہلے آرمی خبردار کرتی مگر ایسی کوئی بات نہیں۔
انجینئر شمس الملک نے انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ میری رہائش نوشہرہ میں ہے۔ کیا میں اپنی رہائش ایسی جگہ بنا سکتا تھا جسے کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے ڈوبنے کا خدشہ ہو۔ ہمیں ایسی باتوں سے اجتناب کرکے قومی ترقی کا سوچنا چاہیے۔ آپ نے کہا کالا باغ ڈیم ایک منصوبے کا نام نہیں بلکہ ملکی ترقی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے راہنما مطلوب وڑائچ کہتے ہیں۔ پنجاب ہمیشہ سے بڑے بھائی کا کردار ادا کرتا آ رہا ہے۔ اس سے کب تک قربانیاں مانگی جاتی رہیں گی۔ چھوٹے بھائیوں کو بھی چاہیے کہ بڑے بھائی کے ہاتھ مضبوط کریں۔اب تو ہر صوبہ کسی نہ کسی صورت میں تیل، بجلی اور گیس کی رائلٹی مانگتا ہے۔ لیکن جب پنجاب کے کسی فائدے کے بات آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
وفاقی وزیر چوہدری احمد مختار نے گجرات میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بجلی کے بحران کے خاتمے کےلئے 4سے 5سال لگ سکتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے توانائی کی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن عالمی طاقتیں کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے نہیں ہونے دے رہیں۔ وفاقی وزیر کی اس بات سے بھارتی مداخلت کی صداقت پر بھی مہر ثبت ہو جاتی ہے۔ کیا ایسی خوفناک رپورٹ بھی نظر انداز کر دینے کے قابل ہے۔کیا اس کی اعلیٰ سطح پر جوڈیشنل انکوائری نہیں ہونی چاہیے۔کیا ہم بھارتی عزائم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں جو ایٹم بم ضائع کرنے کے بجائے ہمیں محض واٹر بم سے ہلاک کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن