شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کے فیصلے اور حکومت کا مقررہ وقت پر انتخابات کرانے کا اعلان.... نگران حکومت کی تشکیل کے بغیر بروقت انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہے؟
پاکستان الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ امن و امان کی صورتحال عام انتخابات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی‘ امن و امان کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کے اجلاس میں انتخابات سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا اور طے کیا گیا کہ امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے دسمبر کے آخری ہفتے میں کمیشن کا خصوصی اجلاس بلایا جائیگا۔ اجلاس میں 19 نئی سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر انتخابی نشانات والی فہرست میں بلی کا انتخابی نشان ختم کر دیا گیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے بتایا کہ بعض حلقوں کی طرف سے ووٹر لسٹوں کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم الیکشن کمیشن موجودہ ووٹر لسٹوں سے پوری طرح مطمئن ہے۔ ہم نے آئین اور قانون کے مطابق ووٹر لسٹوں کی تیاری سے متعلق اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ قبل از انتخاب دھاندلی سے متعلق معاملات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہو جائے‘ الیکشن کمیشن اس معاملہ میں کوئی ایکشن نہیں لے سکتا‘ تاہم اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ الیکشن کمیشن اسے نوٹ کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اپنے جلسے جلوسوں کیلئے ضلعی انتظامیہ کو پہلے آگاہ کرنا ہو گا اور اسکی ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت لینا ہو گی جبکہ انتخابی مہم شروع ہوتے ہی سرعام اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی ہو گی۔ انکے بقول 31 مئی کے بعد انتخابی فہرستوں میں دس لاکھ ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ الیکشن کے اعلان تک مزید 20 لاکھ نئے ووٹ انتخابی فہرستوں میں شامل ہو جائینگے۔
جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی قیادت میں موجودہ الیکشن کمیشن ملک میں آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے بلاشبہ انقلابی اقدامات بروئے کار لا رہا ہے‘ جبکہ چیف الیکشن کمشنر اپنی پیرانہ سالی کے باوجود قوم کو آزادانہ اور شفاف انتخابات کا تحفہ دینے سے متعلق اپنے عہد کی تکمیل کیلئے مستعد اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں میں سے پونے چار کروڑ کے قریب بوگس ووٹ نکال کر انتخابی فہرستیں ازسرنو مرتب کرنے کا فریضہ سرانجام دیا جس کیلئے ”نادرا“ کے ڈیٹا سے مدد لی گئی جبکہ ووٹروں کو بذریعہ موبائل فون ایس ایم ایس اپنے نام کی تصدیق کی سہولت دی گئی۔ اسی طرح ووٹر لسٹوں کو شفاف بنانے کیلئے پولنگ سٹیشنوں پر فراہم کی جانیوالی فہرستوں میں ووٹر کی تصویر بھی دی جا رہی ہے تاکہ کسی ایک کا ووٹ دوسرے کی جانب سے بھگتانے کا کوئی امکان ہی نہ رہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کیلئے ضابطہ¿ اخلاق جاری کرکے ووٹروں کی دھن دھونس دھاندلی پر مبنی ماضی کے انتخابی کلچر سے گلوخلاصی کرانے کی بھی حکمت عملی طے کی گئی ہے اور پھر انتخابی عملے کیلئے عدلیہ کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی ہیں اور ریٹرننگ افسروں کو پولنگ کے دوران انتخابی دھاندلی کا کوئی الزام ثابت ہونے پر متعلقہ امیدوار کو موقع پر ہی سزا دینے کا اختیار بھی تفویض کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پولنگ والے روز اسلحہ کی نمائش اور استعمال پر مکمل پابندی ہو گی جبکہ ضابطہ¿ اخلاق کی اس شق کی خلاف ورزی متعلقہ امیدوار کو نااہلیت کی سزا کا مستوجب قرار دلائے گی۔ اسکے علاوہ امیدوار پر پولنگ سٹیشنوں کے باہر اپنے انتخابی کیمپ لگانے اور ووٹروں کو اپنی گاڑیوں پر انکے گھروں سے پولنگ بوتھوں تک لانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں الیکشن کمیشن کیلئے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں جبکہ اب بروقت اور پرامن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کیلئے ابھی تک کوئی حکمت عملی طے ہوتی نظر نہیں آرہی۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ نے گزشتہ روز لاہور میں ایڈیٹروں اور کالم نگاروں کو دیئے گئے ظہرانہ کی تقریب میں ضرور یہ اعلان کیا ہے کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونگے بلکہ مئی میں اپنے مقررہ وقت پر منعقد ہونگے۔ انکے بقول کسی ناگہانی آفت پر ہی انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں جبکہ طاقتور عدلیہ اور آزاد میڈیا کی موجودگی میں کوئی حکومت الیکشن ملتوی کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تاہم انکے اس اعلان کے باوجود حکومت کی سطح پر ابھی تک عام انتخابات کی کوئی تیاری نظر نہیں آرہی۔ اگر وفاقی وزیر اطلاعات کے بقول انتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد ہونگے تو پھر موجودہ حکومت کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ انتخابات کے انعقاد سے کم از کم تین ماہ قبل عبوری نگران حکومت کی تشکیل لازمی آئینی تقاضا ہے جس کی زیر نگرانی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔ اگر موجودہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد 18 فروری 2013ءکو پوری ہونے پر نئی اسمبلیوں کا انتخاب ہونا ہے تو اس میعاد سے تین ماہ قبل عبوری نگران حکومت تشکیل پا جانی چاہیے تھی مگر نگران حکومت کی تشکیل تو کجا‘ ابھی تک حکومت کی سطح پر اس بارے میں سوچا بھی نہیں گیا۔ 20ویں آئینی ترمیم کے تحت چونکہ عبوری نگران حکومت اپوزیشن کی مشاورت سے تشکیل دی جانی ہے جس کےلئے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نگران وزیراعظم کیلئے تین نام حکومت کو بھجوائے بھی جا چکے ہیں مگر حکومت کی جانب سے نگران سیٹ اپ کیلئے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کا عمل ابھی شروع ہی نہیں کیا گیا۔ جب حکومت مقررہ میعاد کے اندر انتخابات کے انعقاد کا بنیادی تقاضا ہی پورا نہیں کرپائی تو وفاقی وزیر اطلاعات کا مقررہ وقت کے اندر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا معنی رکھتا ہے۔
اسی طرح پرامن اور بروقت انتخابات کے انعقاد کیلئے ملک میں امن و امان کی فضا کو یقینی بنایا جانا بھی ضروری ہے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے مگر اس معاملہ میں بھی حکومت نہ صرف کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر رہی بلکہ عملاً ناکام نظر آرہی ہے۔ اس وقت کراچی اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں تو امن و امان کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے جہاں کم و بیش روزانہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ سپریم کورٹ ان دونوں مقامات پر امن و امان کی ابتر صورتحال کو حکومتی مشینری کی ناکامی سے تعبیر کر رہی ہے اور صورتحال کی درستی کیلئے احکام جاری کرتی ہے مگر وفاقی اور متعلقہ صوبائی حکومتوں کی سطح پر ان احکام کو درخورِاعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے حالات کنٹرول کرنے میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی کوئی دلچسپی ہی نظر نہیں آرہی البتہ بھتہ مافیا کی کارروائیوں کے معاملہ میں ایک دوسرے کو مورد الزام ضرر ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ متنازعہ بلدیاتی آرڈی نینس جاری کرکے سندھ حکومت نے حالات کے بگاڑ کی راہ خود ہموار کی ہے۔ اس سے ہی لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ حکومت کراچی اور بلوچستان کے حالات خود بگاڑ کر انتخابات کو مو¿خر کرنے کا کوئی جواز نکالنا چاہتی ہے۔ حکومت کو کم از کم یہ تاثر زائل کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں کراچی اور بلوچستان میں جاری بدامنی پر بہرصورت قابو پانا چاہیے اور انتخابات سے قبل سیاسی رواداری کی فضا قائم کرنے کیلئے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس معاملہ میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے سیاسی کردار پر بھی انکی پارٹی کے مخالفین کو تشویش ہے جبکہ ایوان صدر میں بیٹھ کر وہ سرکاری وسائل سے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلائیں گے تو اس سے مخالفین ان پر انتخابات پر اثرانداز ہونے کا الزام بھی لگائیں گے ‘ اس سے آزادانہ انتخابات کے عمل پر بھی حرف آئیگا۔
یقیناً انتخابات میں حصہ لینے والی ہر پارٹی کو اپنی سیاسی انتخابی حکمت عملی طے کرنے کا حق حاصل ہے‘ سیاسی جماعتیں انتخابی سرگرمیاں شروع کرینگی تو انتخابی ماحول پیدا ہو گا تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اب غیرجانبدار نگران سیٹ اپ تشکیل دے دیا جائے تاکہ حکومت میں شامل کسی سیاسی جماعت کو اپنی انتخابی مہم اور سرگرمیوں پر سرکاری وسائل بروئے کار لانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ پہلے ہی حکومتی سیاسی جماعتوں کی اشتہاری مہم کیلئے سرکاری فنڈز کے استعمال کا نوٹس لے چکی ہے جبکہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے عمل میں بھی حکومتی پارٹیوں کو سرکاری وسائل کے استعمال سے روکنا ضروری ہے اور یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب انتخابات میں حصہ لینے والی کسی سیاسی جماعت کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اس صورتحال میں تو اب عبوری نگران حکومت کی تشکیل میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اگر حکومت مقررہ وقت کے اندر انتخابات کے انعقاد کی داعی ہے تو پھر اسے عبوری نگران حکومت کی تشکیل کا آئینی تقاضا پورا کر دینا چاہیے جس کے بعد آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی اور اس کیلئے پرامن ماحول فراہم کرنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ حکومت کی جانب سے بہرصورت اب انتخابی عمل کا آغاز تو کردیا جانا چاہیے۔