• news

جرنیلوں سیاستدانوں ججوں کا ماضی ایک جیسا تو؟


بلاشبہ یہ ایک شاندار محفل تھی۔ قمرالزمان کائرہ میڈیا کے لوگوں سے دوستانہ اندازہ کر سکتے ہیں۔ وہ اس آڑ میں کبھی کبھی صحافیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ٹی وی چینل پر ہنسی ہنسی میں صحافیوں کو سیاستدانوں سے زیادہ کرپٹ اور لوٹا ثابت کر دیا جسے بہت ہنسی خوشی سب نے سن لیا تھا۔ کچھ لوگ تو واقعی صحافیوں کے سیاستدان ہیں۔ میڈیا سے متعلق چند لوگوں کی تنخواہیں دس پندرہ لاکھ تک جا پہنچی ہیں۔ یہ اخباری دنیاداری ہے۔ پی ٹی وی پر الگ موج مستی بلکہ بدمستی لگی ہوئی ہے۔ اکثر صحافی دس پندرہ ہزار کے لئے جان مارتے رہتے ہیں جبکہ جان سے مارے جانے کے خطرے کا فائدہ بھی امیر کبیر صحافیوں کو ہوتا ہے۔ ان کی سیکورٹی اور پروٹوکول وزیر شذیر سے کم نہیں ہوتا۔ سچے صحافیوں نے فوجی اور سیاسی حکمرانوں کو بھگتا ہے۔ لوگوں کا فائدہ نہ سیاسی حکمرانوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے ہوا۔ آمرانہ جمہوریت اور جمہوری آمریت۔ پی آئی ڈی کے عثمان صاحب کی کمپیرنگ میں محبت سے زیادہ مروت کا رنگ تھا۔ نجانے یہ آئیڈیا کس کا تھا کہ جس نے اس اچھے ماحول کو پریس کانفرنس بلکہ پریس بریفنگ بننے سے بچا لیا۔ کائرہ صاحب کی گفتگو سے پہلے چند صحافیوں کو بھی دعوت دی گئی۔ مجھے بھی کہا گیا مگر میں نے نجانے کیوں معذرت کر لی۔ عثمان صاحب نے اپنے مختصر ابتدائیے میں کہا کہ اصغر خان کیس کے فیصلہ اور انتخاب و اہمیت کے حوالے سے اظہار خیال کرنے کے لئے کچھ باتیں ہوں گی کسی نے اصغر خان کے جمہوریت دشمن ماضی کا ذکر نہ کیا۔ جیالے وزیروں کو یہ بھی یاد نہیں کہ اس نے ایک منتخب وزیراعظم بھٹو کے خلاف امریکی امداد اور اشیرباد سے تحریک نظام مصطفیٰ چلائی تھی۔ وہ بھی تب ”وزیراعظم“ ہی تھا۔ سینئر دوستوں نے فوج اور عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر کائرہ صاحب نے اس موضوع کو یکسر نظرانداز کیا۔
ماضی اگر جرنیلوں اور ججوں کا خراب رہا تو سیاستدانوں کا ماضی بھی ان سے مختلف نہیں۔ افسروں کا ماضی بھی ایسا ہی ہے۔ مگر وہ کبھی موضوع بحث نہیں بنے۔ جرنیل اگر قصوروار ہیں اور جج بھی ہیں کہ انہوں نے جرنیلوں کے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے۔ جرنیلوں کو حکومت کرنے کا حق ہے بلکہ انہیں آئین میں تبدیلی کا حق بھی دے دیا گیا۔ سیاستدانوں نے ججوں سے بھی پہلے جرنیلوں کو خوش آمدید کہا اور پھر ان کی فرمانبرداری بلکہ ملازمت یعنی نوکری کی۔ حضوری اور جی حضوری میں فرق مٹا دیا۔ خوشامد اور خوش آمدید میں بھی کوئی فرق نہیں رہنے دیا۔ جنرل ضیاءکی مجلس شوریٰ میں کوئی فوجی افسر نہ تھا۔ اس کے بعد محمد خاں جونیجو وزیراعظم بنے۔ اسمبلیوں میں حاضر سروس فوجی افسران نہ تھے۔ وہاں سب سیاستدان تھے۔ کچھ عرصے کے بعد حکومت میں صرف جنرل مشرف رہ گئے۔ باقی سب چھوٹے بڑے حکمران سارے کے سارے سیاستدان تھے۔ سیاستدانوں نے کبھی اتحاد اور اتفاق کا راستہ نہیں اپنایا۔ کسی نے کہا کہ ہمارے اختلافات اپنی جگہ مگر ہم غیر آئینی اقدام کے خلاف ایک ہیں۔ اب بھی خدانخواستہ کچھ ہوا تو سیاستدان اپنا اپنا مفاد دیکھیں گے۔
اب اگر سیاستدان کسی حد تک یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ججوں اور جرنیلوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس بنچ میں تھے جس نے جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دیا اور آئین میں تبدیلی کا حق بھی دے دیا۔ جبکہ عدالت خود بھی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہ بھی تو دیکھئے کہ ان آئینی تبدیلیوں کو 17 ویں ترمیم کی صورت میں تین چوتھائی اکثریت سے منظور کس نے کروایا۔ یہ خدمت بلکہ ”آئینی“ خدمت سیاستدانوں نے انجام دی۔ اٹھارویں ترمیم کی صورت میں سترہویں ترمیم کو ختم کرنے والے بیشتر سیاستدان وہی تھے جنہوں نے سترہویں ترمیم منظور کرائی تھی۔
اگر آج سیاستدان حکومت کرنے کے لئے اپنے حق میں بول رہے ہیں۔ وہ یہ ”حق“ جرنیلی صدر کی لیڈر شپ میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ ویسے بھی سیاسی قیادت ہمیشہ عسکری قیادت کے تھلے پروان چڑھتی ہے۔ وہ آج بڑھ چڑھ کر جرنیلوں کی مذمت کر رہے ہیں تو آج جنرل کیانی سیاست اور حکومت میں آنے کے لئے اعلانیہ انکار کر رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے کہا کہ حالات کو خود کنٹرول کرنے کا حق ہمیں نہیں ہے۔ ہمیں اپنی مدد کے لئے بلایا جائے گا تو ہم حاضر ہیں۔ مخالف حکومت کا تختہ الٹانے کے لئے سیاستدان ہی منتظر رہتے تھے تو وہ مستحق بھی تھے کہ انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال دیا جائے۔ مگر وہ جرنیلی سیاست سے دوبارہ اندر آ جاتے رہے ہیں۔ باوردی جرنیل کے خلاف کسی سیاستدان نے اتنی جرات نہیں کی جو ایک جج نے کی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے لئے وکلا تحریک کے نتیجے میں سیاستدان جنرل مشرف کی موجودگی میں پاکستان آئے۔ یہ جمہوریت بھی اسی تحریک کے ثمرات میں سے ہے۔
تو اب سیاستدان جرنیل اور جج مل کر بیٹھیں ماضی کو بھلا دیں کہ ماضی سب کا ایک جیسا ہے تو ایک جیسے مستقبل کے لئے آگے بڑھیں۔ کائرہ صاحب کی گفتگو بہت متوازن تھی۔ وہ بہت اعتماد سے کھلم کھلا بولتے ہیں۔ شائستگی ہمیشہ قائم رکھتے ہیں ججوں اور جرنیلوں کے علاوہ سیاستدانوں سے بھی انہیں شکایت ہے مگر وہ اس حکایت کو سیاسی اور دوستانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ ہماری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے یہ کریڈٹ ہے تو یہ کریڈٹ بھی ہمارا ہو گا کہ الیکشن ہوں گے۔ 2008ءمیں بھی ہوئے تھے اب بھی ہوں گے۔ کائرہ صاحب امید سے ہیں کہ پھر بھی ہم آئیں گے۔ کسی نے پوچھ لیا کہ آپ کہتے ہو کہ نواز شریف کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کے خواہشمند احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ جیت گئے تو کیا آپ انہیں مبارکباد دیں گے۔ کائرہ صاحب نے کہا کہ ہم ضرور مبارکباد دیں گے مگر شاید یہ شرف ہمیں نہ ملے کہ جیتیں گے تو ہم ہی۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ پی پی پی ختم ہو چکی ہے۔ مگر ایک سیاسی حقیقت تو ہے نواز شریف یہ بھی یاد رکھیں کہ حقیقت کبھی کبھی تلخ حقیقت بن جاتی ہے۔ صدر زرداری اور نواز شریف دونوں اندر سے ملے ہوئے ہیں۔ باہر سے بھی ملاپ ہو گیا تو کیا بنے گا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تو اب نواز شریف کی سیاست ان کے اپنے قابو میں نہیں آ رہی۔
نواز شریف اور سب لوگ باخبر ہیں کہ سیاستدانوں نے جرنیل بننے کی کوشش کی جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی اب تو جج بھی سیاستدان بنتے جا رہے ہیں۔ فیصلے بیانات اور اعلانات بنا دئیے جاتے ہیں۔ سیاستدان اپنے بیانات اور اعلانات کو فیصلے سمجھتے ہیں۔ فیصلے اور فاصلے یکجا ہوتے جاتے ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا کام کرے۔ مجید نظامی نے جنرل مشرف سے کہا کہ آپ نے امریکی کولن پاول کی ایک فون کال پر سرنڈر کر دیا۔ سرنڈر کے طعنے سے جرنیل بہت چڑتے ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے۔ نظامی صاحب نے بے ساختہ کہا میں جہاں ہوں وہیں خوش ہوں میں کیوں آپ کی جگہ ہوتا۔ آپ بھی اپنی جگہ پر ہوتے تو قوم کا یہ حال نہ ہوتا۔ آرمی چیف کا صدر مملکت بننا غیر سیاسی کام ہے غیر فوجی کام بھی ہے۔ آرمی چیف کو ریاست کی فکر کرنا چاہئے۔ سیاست کی فکر نہیں کرنا چاہئے۔ یہی میں جنرل کیانی سے کہتا رہتا ہوں۔ سیاست اور حکومت میں نہ آﺅ مگر جہاں آنا ہے وہاں تو آﺅ۔ جرنیلوں کا امور سیاست سنبھالنا جائزہ نہیں تو سیاستدانوں کا امیرالمومنین بننا بھی مناسب نہیں۔ سیاستدان فرینڈلی اپوزیشن بنا لیتے ہیں تو فرینڈلی حکومت کیوں نہیں بناتے۔ آخری بات یہ ہے کہ کائرہ صاحب نے جان بوجھ کر یا بے دھیانے میں کہہ دیا۔ الیکشن ضرور ہوں گے مگر کوئی ناگہانی آفت بھی آ سکتی ہے۔ ہمارے نامور شاعر غالب کے زمانے میں بھی حالات آج سے اتنے مختلف نہ تھے۔ وہ غالب مغلوب بن کر رہ گئے تھے
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

ای پیپر-دی نیشن