سنوکر بلیئرڈ بہترین کارکردگی کے باوجود نظرانداز....!
ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ میں پاکستان کے دو کھلاڑی محمد آصف اور اسجد اقبال ناک آﺅٹ راﺅنڈ تک پہنچ گئے ہیں۔ اس مرحلے میں بھی کھلاڑوں سے اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔ پاکستان کے سنوکر پلیئرز بلغاریہ روانگی سے قبل جس ذہنی تکلیف اور پریشانی سے گزرے اس کے بعد کھلاڑیوں کا ناک آﺅٹ مرحلے کے لئے کوالیفائی کرنا قابل تحسین ہے کیونکہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے آخری وقت تک محمد آصف اور اسجد اقبال کی ورلڈ چیمپئین شپ میں شرکت غیر یقینی سمجھی جا رہی تھی۔ سنوکر بلیئرڈ کو ہمیشہ مسائل کا سامنا رہا ہے جب بھی کسی بین الاقوامی مقابلے میں شرکت کا وقت آتا ہے تو پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کے پاس اتنے فنڈز نہیںہوتے کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کے دوروں کا اس انداز میں بندوبست کرے کہ کھلاڑی ذہنی طور پر پُرسکون رہتے ہوئے کسی بھی ایونٹ کی تیاری کر سکیں بد قسمتی سے حالت یہ ہے کہ جب تک کھلاڑی اپنی منزل تک پہنچ نہ جائے اسے یقین نہیں ہوتا کہ پاکستان سے باہر کسی بھی ٹورنامنٹ کا حصہ بن رہا ہے، ایسوسی ایشن کی گرانٹ کم ہوتی ہے اس لئے وقتاً فوقتاً پاکستان سپورٹس بورڈ سنوکر کھلاڑیوں کےلئے خصوصی گرانٹ جاری کرتا رہتا ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی پاکستان کے یہ کھلاڑی کسی بھی کوچ کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت ٹریننگ کر رہے ہیں اور کسی بھی مقابلے میں ان کی کامیابی خالصتاً ذاتی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے۔ سنوکر میں پاکستان عالمی چیمپیئن بھی رہ چکا ہے۔ 1994ءمیں محمد یوسف نے یہ اعزاز جیتا تھا جبکہ اس کھیل میں پاکستان ایشین چیمپئن بھی رہ چکا ہے اس کے باوجود سنوکر کھلاڑی بغیر مراعات، سہولتوں اورملازمتوں کے معاشی تفکرات کا بوجھ اٹھائے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے محنت کرتے رہتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر ابھی تک سنوکر بلیئرڈ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکی۔
بے روزگار کھلاڑیوں کے مسائل حل کرکے ہم اس سے بھی بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی ملازمتوں کا مسئلہ پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں محکموں پر دباﺅ بڑھا کر محکموں کی ٹیمیں بنانی چاہئیں۔ ایسی بھی کھیلیں ہیں جن میں پاکستان نے بین الاقوامی مقابلوں میں بھی کوئی میڈل حاصل نہیں کیا لیکن ان کھیلوں کے کھلاڑی برسر روزگار اور معاشی تفکرات سے آزاد ہیں اور ان کی توجہ مکمل طور پر اپنے کھیل پر ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سنوکر کا اولمپکس ایسوسی ایشن کے ساتھ الحاق ہی نہیں ہے۔سنوکر بلیئرڈ نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ جنہوں نے کھیل کے فروغ کیلئے کام کرنا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہی اس کے سب سے بڑے دشمن ہیں یہی وجہ ہے کہ پی ۔بی۔ ایس۔ اے کے اعلیٰ حکام کے رویے سے ماہرین ،نقاد اور مجبور سنوکر پلیئربھی خوش نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق سنوکر کھلاڑیوں کی ملازمتوں کا مسئلہ اسلئے حل نہیں ہوتاکیونکہ محکموں کی نمائندگی سے سنوکر ایسوسی ایشن کے حکام کی بادشاہت ختم ہوجائیگی۔کھیل کے فروغ کیلئے کام کرنے کے دعویدار اور ذمہ دار ہی اسکی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔نئے سال کیلئے کھلاڑیوں کو جس کنٹریکٹ کی پیشکش کی ہے پلیئرز کی بہت بڑی تعداد اس پر دستخط کرنے سے انکاری ہے۔کھلاڑیوں میں یہ سوچ تیزی سے فروغ پا رہی ہے کہ اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو وہ شاہراہ دستور پر مظاہرہ کریں گے اور اپنی سنوکر سٹک جلا دیں گے ۔ضروری ہے کہ عالمی چیمپئن اور ایشین چیمپئن کا اعزاز حاصل کرنےوالے اس کھیل کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔سپورٹس جرنلسٹ فہیم انور کا کہنا ہے کہ میڈل وننگ اس ایسوسی ایشن کافی الفور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے ساتھ الحاق ہونا چاہیے۔ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ٹورنامنٹس کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسوسی ایشن کے عہدیدار بھی معاملات کے حل میں سنجیدہ نظر نہیںآتے بلکہ دورے اور موج میلہ کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
....٭....٭....٭....