• news

پاکستان کرکٹ بورڈ کی میڈیا پالیسی: یہ دستور زباں بندی

حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ ان دنوں اپنی میڈیا پالیسی اور صحافیوں پر مشروط پابندیوں کی وجہ سے خاصی تنقید کی زد میں ہے کبھی صحافیوں پر نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں پابندی کی خبریں سامنے آتی ہیں تو کبھی قومی کرکٹرز کو میڈیا سے دور رکھنے کی شکایات منظرِ عام پر آتی ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بورڈ آفیشلز اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے مخصوص اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ انٹرویوز کے ذریعے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ایسے کھلاڑی جو ٹیم کا حصہ ہیں یا مستقبل میں قومی ٹیم میں جگہ بنا سکتے ہیں نا صرف انہیں چھپا چھپا کر رکھ رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ سابق کرکٹرز جو کرکٹ بورڈ کے ساتھ منسلک ہیں انہیں بھی میڈیا سے دور رکھا جا رہا ہے۔
شائقین کرکٹ اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھنے اور سننے سے محروم ہیں آخر ایسا کیوں ہے اور کیا یہ واقعی ضروری ہے کہ تنازعات سے بچنا ہے تو کھلاڑیوں کو میڈیا سے دور رکھ کر مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس حوالے سے سپورٹس جرنلسٹ ذوالقرنین شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کنفیوژ ہے یہی وجہ ہے کہ بورڈ خبروں کی تردید جاری کرنے میں مصروف ہے۔ میڈیا پر پابندیوں کی وجہ سے منفی خبریں سامنے آ رہی ہیں جس کی وجہ سے کرکٹ بورڈ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ کرکٹ بورڈ میں موجود سابق کھلاڑیوں اور قومی کرکٹرز کو میڈیا سے دور رکھنے کی مشروط سازش کا نقصان صرف اور صرف کرکٹ کو ہو رہا اور اس حد تک سختی ہے کہ اگر کھلاڑیوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگانا ہے تو انہیں کرکٹ بورڈ سے ”اجازت“ لینا پڑتی ہے۔ یہ کیسی پالیسی ہے کہ کھلاڑی جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین جاری سیریز پر بھی اپنے خیالات کا اظہار ہی نہیں کر سکتا اور نا ہی کھلاڑیوں کو اپنی ٹریننگ کے بارے میں بولنے کی اجازت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں داخلے کےلئے صحافیوں کو بھی کرکٹ بورڈ کا اجازت نامہ لینا ضروری ہے۔ بورڈ اگر سینٹرل کنٹریکٹ پر پابندی چاہتا ہے تو دو ٹوک م¶قف اختیار کر لے کو کوئی بھی کھلاڑی کسی سے بھی بات نہیں کرسکتا تاکہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔ سپورٹس جرنلسٹ آفتاب تابی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال اور تنازعات کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ ہے وہ اپنی نوکریاں بچانے اپنی اہمیت اور موجودگی کو ثابت کرنے کےلئے ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے ان وفاداری اور قابلیت نظر آئے اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو ان پالیسیوں سے بورڈ پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ڈپیارٹمنٹ کے سربراہ نے بھی دوہرا معیار اختیار کیا ہوا ہے وہ چند اخبارات اور ٹی وی چینلز کو ہی پورا پاکستان سمجھتے ہیں اور من پسند افراد کےلئے بورڈ کے تمام وسائل، کھلاڑی اور آفیشلز حاضر ہیں اور مند پسند افراد کے ساتھ خصوصی برتا¶ نا صرف ان کی ذمہ داریوں سے ناانصافی ہے۔
کرکٹ بورڈ کا میڈیا سیل ایک سیاسی جماعت کا ”سیل“ معلوم ہوتا ہے جہاں حکمران جماعت صرف اپنے نمائندوں کےلئے وسائل استعمال کرتی ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ ثناءاللہ خان کا کہنا تھا کہ کرکٹ بورڈ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میڈیا کا مطلب صرف میڈیا ہوتا ہے اس میں بڑے اخبار یا چھوٹے اخبار اسی طرح بڑا چینل یا چھوٹا چینل نہیں ہوتا سب کے ساتھ یکساں سلوک ہی بہتر حل اور یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کے انٹرویوز کےلئے پیشگی اجازت کوئی بُری بات نہیں ایک ادارے کے قوانین پر عمل کرنے اور ڈسپلن کو قائم رکھنے کےلئے یہ ضروری ہے تاہم اس معاملے میں پھر کوئی تفریق نہیں ہونی چاہئے۔ ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ قومی کرکٹر بورڈ آفیشلز سے زیادہ سمجھدار اور چالاک ہوتے ہیں۔ کھلاڑی اس وقت تک کبھی کسی تنازعہ کا باعث نہیں بنتا کہ جب تک اس کی اپنی ضرورت نہ ہو۔ عبدالرزاق اور محمد حفیظ والا معاملہ اس کی تازہ مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو ہمیشہ تنازعات بورڈ آفیشلز کی طرف سے ہی ملی ہیں۔ ڈیوڈ واٹمور کو بھی میڈیا سے دور رکھا ہوا ہے حالانکہ اگر وہ میڈیا میں اِن ہونگے تو دنیا میں پاکستان کا اچھا تاثر ہی جائے گا اس طرح کھلاڑیوں کو بھی کھیل کے فروغ کےلئے میڈیا سے بات کی اجازت ہونی چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن