کوچ‘ منیجر نہ وسائل‘ محمد آصف پھر بھی دنیائے سنوکر کا ”سکندر“
پاکستان سے ہزاروں میل دور بہت دور پاکستان کا ایک بے بس ، لاچار، بے روز گار معاشی تفکرات میں گھرا نوجوان محمد آصف جب ”چندے“ کے پیسے پر بلغاریہ ورلڈ امچور سنوکر چیمپئن شپ کے پہلے میچ میں فاتح ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ2 دسمبر کو وہ ناصرف ایک نئی تاریخ رقم کرے گا بلکہ ایک تاریخ دہرائے گا۔ محمد آصف نے بلغاریہ میں ورلڈ سنوکر چیمپئن شپ کے فائنل میں برطانوی حریف گیری ولسن کو شکست دیکر سنوکر کے فاتح عالم کا اعزاز حاصل کر لیا۔ انہوں نے یہ مقابلہ آٹھ کے مقابلے میں دس فریمز سے جیتا۔ محمد آصف پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہے۔ 1994ءمیں محمد یوسف نے پہلی مرتبہ پاکستان کےلئے عالمی ٹائٹل جیتا تھا۔ 2003ءمیں بھی پاکستان کے صالح محمد ورلڈ چیمپئن شپ کے فائنل تک پہنچے تاہم بدقسمتی سے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
محمد آصف نے نامساعد حالات میں پاکستان کےلئے عالمی ٹائٹل جیتا ہے یہ یقینی طور پر دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کے لئے ایک اعزاز ہے۔ محمد آصف کی فتح کی خبر کے ساتھ ہی پورا پاکستان محمد آصف زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا، دیار غیر میں محمد آصف کا فتح کے بعد بے اختیار سجدہ شکر ان تمام لوگوں کیلئے ایک سبق ہے جو مشکل حالات سے گھبرا کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے ایک ایسا کھلاڑی جسے چندہ جمع کر کے عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کیلئے بھیجا گیا، نا اسکا کوئی کوچ ہے نا مینجر لیکن یہ بلند ہمت کھلاڑی نے ہمت ہارنے اور وسائل کی کمی کا رونا رونے کی بجائے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کا عزم لیکر بلغاریہ پہنچا اور ساری دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ محمد آصف بے روز گار ہے۔ اس کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے لیکن جو صلاحیت اس کے پاس ہے وہ 18 کروڑ عوام میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ وہ واقعتاً قسمت کا دھنی بلکہ مقدر کا سکندر نکلا۔
آج جب وہ فاتح عالم ہے تو ہر کوئی اس فتح کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرے گا لیکن درحقیقت اس کامیابی میں محمد آصف اور اس کے گھر والوں کے علاوہ صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جنہوں نے اس کی چیمپئن شپ میں شرکت کو یقینی بنانے کےلئے چندہ دیا، اس کی حوصلہ افزائی کی اور دعائیں دیں۔ پاکستان سنوکر میں دوسری مرتبہ عالمی چیمپئن بنا ہے۔ اس کھیل میں ہم ایشیئن چیمپئن بھی رہ چکے ہیں تاہم بدقسمتی سے آج تک سنوکر کھلاڑیوں کی قسمت نہیں بدلی۔ وہ بے روز گار ہیں اور اپنی ہی ایسوسی ایشن کے ظلم کا بھی شکار ہیں، ستم یہ ہے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے پاکستان بلیئرڈ اینڈ سنوکر ایسوسی ایشن کا الحاق ہی نہیں ہے۔ جہاں تک حکومتی سرپرستی کی بات ہے تو کسی بھی محکمے میں سنوکر کی ٹیم نہیں ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بھی اس کے باقاعدہ مقابلے نہیں ہوتے۔ محمد آصف فاتح عالم بنے ہیں اورصدر پاکستان آصف علی زرداری نے ان کےلئے صرف ایک لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے فراخدل وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قوم کو مبارکباد دینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ بھلا ہو وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کا جنہوں نے فرزند فیصل آباد محمد آصف کو اس تاریخی کامیابی پر دس لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ محمد آصف کےلئے اچھی ملازمت کا فوری اعلان حکومت کی ذمہ داری ہے۔
61 سال قبل ہاشم خان کو چندہ جمع کر کے برٹش اوپن میںشرکت کیلئے بھیجا گیا تھا۔ اس وقت وہ چیمپئن بنے اور آج 2012ءمیں بھی محمد آصف کی عالمی سنوکر چیمپئن شپ میں شرکت اور عالمی اعزاز مخیر حضرات کی مرہون منت ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہمارا سپورٹس مین آج بھی ”چندے‘ امداد“ اور خصوصی فنڈز پر چل رہا ہے۔ اب تو حاکم وقت آنکھیں کھول لے اب تو ہماری صلاحیت دنیا کے سامنے ہے پھر کھلاڑیوں سے ناروا اور سوتیلوں جیسا سلوک کیوں؟ ہاکی اور کرکٹ کو بہت پیسے ملتے ہیں جن کھیلوں میں ہم میڈل حاصل کرتے ہیں ان کی سرپرستی صرف گلیمر نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کی جاتی۔ کیا یہ اپنے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں سے ناانصافی نہیں؟
محمد آصف کو قسمت نے موقع دیا اور اس نے فائدہ اٹھایا، اس جیسے کئی باصلاحیت وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سامنے نہیں آپاتے۔ ہمیں اپنے ٹیلنٹ کو نکھارنے اور سنبھالنے کےلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پیشتر اس کے کہ ڈاکٹرز انجینئرز کی طرح کھلاڑی بھی بڑی تعداد میں بیرون ملک چلے جائیں۔
محمد آصف اور اس کے گھر والوں کو مبارکباد، دعا ہے کہ پاکستان کے اس نامور بلند ہمت کھلاڑی کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہے اور محمدآصف کی کامیابی بے بس کھلاڑیوں کے مسائل کے خاتمے کا باعث ہے۔