• news

کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا عدالتی حکم

مکرمی! لاہور ہائی کورٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی روشنی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ اس مقصد کے لئے ضروری اقدامات کیے جائیں۔چیف جسٹس عمر عطاءبندیال کی طرف سے جاری کردہ مختصر حکم میں کہا گیا ہے کہ”دستور پاکستان پانی اور بجلی سمیت متعدد امور کے کے متعلق مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی)کو وفاق کی پالیسیاں تشکیل دینے کا خصوصی اختیار دیتا ہے۔سی سی آئی کا فیصلہ تسلیم کرنا اس وقت لازم ہے جب تک دستور کے آرٹیکل(7)154کے تحت پارلیمنٹ اس میں ترمیم نہیں کرتی“۔سابق چیئر مین واپڈااور خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر اعلیٰ شمس الملک نے کہا صوابی اور نوشہرہ کا لاباغ ڈیم کے مقام سے ایک سو پچاس کلومیٹر دور ہیں۔ڈیم کی تعمیر سے دونوں شہروں کو نقصان پہنچنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔چھوٹے ڈیموں کے حامیوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ750چھوٹے ڈیم بنانے سے بہتر ہے کہ ایک کالا باغ ڈیم بنالیا جائے۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔اس سے ملک کی معیشت،زراعت،صنعت کو فائدہ اور مہنگائی کم کرنے میں مددملے گی۔ٹھٹہ،بدین اور سندھ کے دیگر اضلاع میں20لاکھ ایکڑمزید زیر کاشت آئیں گے۔خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان،بنوںودیگراضلاع میں8لاکھ ایکڑ کی آب پاشی ممکن ہوجائے گی۔بلوچستان میں7لاکھ ایکڑرقبہ مزید سیراب ہوگا اور اس کی تعمیر سے پنجاب کو بھی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا۔کالاباغ ڈیم سے3600میگاواٹ سستی بجلی پیدا ہوگی اور بجلی صارفین کو132ارب روپے کا بلوں میں ریلیف ملے گا۔لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں یہ ڈیم نہایت مددگار ثابت ہوگا۔ملک کو سالا نہ350سے300ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔زرعی و دیگر پیداواریں 15فیصد بڑھ جائیں گی۔صنعت کی پیداواری لاگت15فیصد کم ہوجائے گی جس سے ملک کی بر آمدات میں7سے10ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہوسکے گا۔یعنی کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے درآمدات اور برآمدات کا25ارب ڈالر کا فرق کم ہوکر15ارب ڈالر تک رہ جائے گا۔لاہور چیمبر کے صدر فاروق افتخار بھی کہہ چکے ہیں کہ ”بجلی و پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزہر ہوچکی ہے“یقینی طور پر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے نے بجلی کے بحران سے پریشان لوگوں کے لئے امیدکی کرن پیدا کردی ہے۔ڈیم کی عدم تعمیر سے ملک کو132ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔جمہوری ریاستوں میں فیصلے کثرت رائے سے اور مجموعی قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔کسی بھی فرد یا گروہ کے سیاسی مفادات قومی مفادات پر غالب نہیں آتے۔چین میں شنگھائی کے قریب ایک ڈیم کی تعمیر پر حکومت بضد رہی اور آج چین اس ڈیم سے مستفید ہورہا ہے۔پیپلز پارٹی اتفاق رائے قائم کر کے مفاہمت کے نام پر اتحادی حکومت تو قائم کرسکتی ہے مگر کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے قائم نہیں کی جارہی۔عدالتی فیصلے کے بعد حکومت کو چاہئے تو یہ منصوبہ شروع کرسکتی اور جب یہ منصوبہ شروع ہوگا تو موٹروے بنوں عاقل چھاﺅنی منگلہ ڈیم توسیعی منصوبے کی طرح اس کی بھی مخالفت دم توڑ دے گی۔
(عمران الحق منصورہ لاہور0312-4141837)

ای پیپر-دی نیشن