اپنے بیش بہا ماضی سے سجا ہوا شخص
پنجاب یونیورسٹی کے اجلے اور شاندار پنڈال میں 50 فیصد سے کچھ کم ڈاکٹر بیٹھے تھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تو مجھے بھی ملی ہے۔ اب مجھے فخر ہو رہا ہے یہ واقعی کوئی اعزاز ہے۔ جب ڈاکٹر مجاہد کامران کی تخلیقی تہذیبی اور تعلیمی روشنی سے بھری ہوئی شخصیت نے محسوس کیا کہ اعزازی ڈگریاں صرف حکمرانوں کو کیوں ملتی ہیں۔ تعلیم اور سیاست کی دنیا کے علاوہ ایک صحافت کی دنیا بھی ہوتی ہے۔ وہاں بھی ایک حکمران بہت سادگی اور آسودگی سے اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا ہے۔ ان کی جرا¿ت اظہار سے ایوانوں اور میدانوں کے مکیں کانپتے ہیں۔ اب وقت کچھ ایسا آ گیا ہے کہ وہ کانپتے نہیں ہانپتے ہیں۔ مجید نظامی کے لئے ہماری تعریف میں معصومیت اور بے غرضی ہے۔ حکمرانوں کی، سیاستدانوں کی تعریف میں مصنوعیت ہوتی ہے۔ مجید نظامی آج کل کچھ گراں گوش ہیں۔ وہ سن بھی لیتے ہوں گے مگر سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ ان کے شاندار اور بیش بہا ماضی نے انہیں بے نیاز کر دیا ہے۔ اب کوئی بات ان کے لئے نئی بات نہیں۔ کوئی بات پرانی بات بھی نہیں ہے۔ شاہد رشید نے بتایا کہ وہ اپنے لئے ایسی تقریبات کے حق میں نہ تھے مگر نئی نسل کی تربیت کے لئے یہ اعتراف خدمت ضروری ہے۔کیا کوئی ایسا صحافی ہے جس نے جابر حکمرانوں کے سامنے سچی اور کڑوی بات کرنے کی جرا¿ت کی ہو۔ کلمہ حق کہنا کلمہ حق لکھنے سے زیادہ مشکل ہے۔ جرا¿توں کے پہاڑ کھڑے کرنے کے باوجود وہ ایک دن بھی جیل نہ گئے۔ یہ انفرادیت ہمیں قائداعظم کی یاد دلاتی ہے۔ اسیری بھی بڑی قربانی ہے مگر قربانی کی کئی قسمیں ہیں۔ اتنی بے باکی اور بے نیازی کسی کو نہ ملی ہو گی۔ کئی صحافی ایسی بات لکھ کر زنداں کی دیواروں کے پیچھے چلے گئے۔ کوڑے کھائے اور سختیاں برداشت کیں۔ صحافی خاور نعیم ہاشمی کوڑے کھانے کے حوالے سے یاد آتا ہے۔ جس نے کبھی اپنے مشکل دنوں کو یاد بھی نہیں کیا۔ حکمرانوں کے منہ پر مشکل بات ہے مگربے دھڑک کر دینا صرف مجید نظامی کا شیوہ رہا ہے۔ یہ ایک زندہ تاریخ ہے۔ ان کے لئے تو یہ ایک روٹین تھی۔ صرف ایک واقعہ بیان کروں گا۔ یہ واقعہ بھی کئی دفعہ سنا ہوا ہے۔ وہ فوجی حکمرانوں کے بہت خلاف ہیں۔ کئی سیاسی حکمران بھی فوجی بننے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ صدر جنرل مشرف نے نوائے وقت کے لئے انٹرویو کا وقت دیا۔ انہوں نے خواہش اور گزارش کی کہ میں مجید نظامی کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون شخص ہے جس کا اتنا تذکرہ صحافت اور سیاست کی ریاست میں ہوتا ہے۔ مجید نظامی چلے گئے۔ دوران گفتگو مشرفنے کہا کہ آپ بھی کچھ فرمائیں نظامی صاحب نے کہا کہ بات معاہدے کا حصہ نہیں مگر مشرفنے اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے سامنے سرنڈر کرکے قوم کا سر نیچا کر دیا۔ فوجی سرنڈر کے لفظ سے بہت چڑتے ہیں جبکہ ہمارے جرنیلوں کو یہ تجربہ ہے۔ محفل میں جنرل حمید گل بھی تھے۔ انہوں نے سر ہلا کر اس کی تائید کی جنرل حمید گل ایک سچے بہادر اور پاکستانی اور پورے مسلمان جرنیل ہیں۔ میں نے ان کے لئے کہا تھا کہ ایسا جرنیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ وہ اب بھی میدان میں ہیں۔ نظریاتی میدان بھی میدان جنگ کی طرح ہوتا ہے۔ جنرل مشرف نے کھسیاناہو کر کہا کہ مجید صاحب آپ میری جگہ پر ہوتے تو کیا کرتے۔ آپ نے کہا کہ میں کیوں آپ کی جگہ پر ہوتا۔ میں جہاں ہوں وہاں جتنی عزت مجھے ملی ہے کسی اور جگہ نہ ملتی۔ جنرل صاحب آپ بھی اپنی جگہ پر ہوتے تو ملک و قوم کا اتنا برا حال نہ ہوتا جو ہو چکا ہے۔ آرمی چیف اپنے دفتر اور میدان میں اچھا لگتا ہے اس کی جگہ ایوان صدر اور سیاست کی رزم گاہ نہیں۔ کوئی بتائے کہ کوئی آدمی اس طرح بات کر سکتا ہے جو مجید نظامی نے کی۔ انہوں نے ایڈیٹر کی شان میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ میرا اعزاز ہے کہ وہ میرے چیف ایڈیٹر ہیں۔ میں دوسرے اخبار میں تھا تو بھی اعلانیہ کہا کرتا تھا کہ میرے چیف ایڈیٹر مجید نظامی ہیں۔ میں آج بھی اعلان کرتا ہوں کہ چیف ایڈیٹر ایک ہی ہے اور وہ مجید نظامی ہے۔سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ کسی سکالر، اہل قلم اور ایڈیٹر کے لئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ایسا انوکھا واقعہ ہے کہ ہم ڈاکٹر مجاہد کامران کے لئے احسان مند ہیں۔ ڈاکٹر رفیق احمد نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین ہیں۔ وہ بڑی بے غرضی اور جانفشانی کے ساتھ شاہد رشید کے ساتھ مل کے چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ مجید نظامی کی قیادت میں شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اپنے دور میں خود بھی یہ کریڈٹ لے سکتے تھے مگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری مجید نظامی کی خدمت میں پیش کرنے کی خوش نصیبی اور افتخار ڈاکٹر مجاہد کامران کے حصے میں آیا ہے۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کا اعزاز ہے۔ میرے پاس بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے۔ مگر مجھے اب زیادہ اچھا لگ رہا ہے۔ میں ڈاکٹر مجاہد کامران کو دلیر اور دانشور وائس چانسلر کہتا ہوں۔ حیرت ہے کہ اتنا پڑھا لکھا آدمی بھی وی سی ہو سکتا ہے۔ وہ مادر علمی اور مادر وطن کی سرحدیں ملانا چاہتے ہیں مگر کون انہیں بیورو کریسی کی زبردستیوں اور بے انصافیوں سے بچائے گا۔ کسی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بلکہ ڈگری ملنے پر اتنی پذیرائی نہ ملی جو مجید نظامی کو ملی ہے۔ یہ طے ہے کہ شخصیت بہرحال ڈگری سے بہت بڑی ہوتی ہے سب لوگ ان کی تعریف کر رہے ہیں جبکہ انہیں تعریف کی حاجت نہیں۔ مگر یہ تقریب میرے لئے اہم ہے کہ وہ میرے چیف ایڈیٹر ہیں۔سفید اور اجلے رنگوں سے بنا ہوا ایک شخص تھا حکیم محمد سعید۔ جو پاکستان کے کرپٹ دشمنوں کے خلاف جرات اظہار پر شہید ہوئے۔ انہوں نے حکیم کے لفظ کو معتبر کر دیا۔ ڈاکٹر کے لفظ کو مجید نظامی کی وجہ سے ایک مرتبہ اور توقیر ملی ہے۔ انہوں نے اخبار کے ایڈیٹر کے مقام میں ایک نئی شان پیدا کی ہے۔ بڑے بڑے حکمران افسران اور وزیر شذیر ان کے دفتر کے سامنے ان سے ملنے کے منتظر اور بے تاب دیکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ مجید نظامی پاکستان ہیں۔ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے لئے آواز اسی فورم سے بلند ہوتی ہے جہاں وہ موجود ہوتے ہیں۔ آج ہمارا میڈیا، ہمارے دانشور، سیاستدان اور صحافی پاکستان میں امریکہ اور بھارت کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ مگر پاکستان ضرور قائداعظم کا بنے گا۔ ”پاکستان نور ہے نور کو زوال نہیں“ یہ الفاظ روحانی دانشور واصف علی واصف کے تھے۔ بابا عرفان الحق بھی یہی کہتے ہیں۔ اس وقت جتنے جینوئن بابے ہیں وہ سب پاکستان کے مستقبل کو سارے مسلمانوں کے ساتھ جوڑتے ہیں یہ انسانوں کے مستقبل کے لئے بھی خیر کی نوید کی طرح ہو گا کیونکہ پاکستان خطہ عشق محمد ہے اور محمد رسول اللہ رحمت العالمین ہیں۔ میں نے اپنے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کے لئے کہا تھا کہ ان کی خوشامد بھی جائز ہے۔ میرے خیال میں وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ وہ بے نیاز اور اپنے مقام سے آشنا آدمی تھے۔ یہی بات میں اپنے صحافتی قبیلے کے سالار مجید نظامی کے لئے کہتا ہوں۔ منیر نیازی کا ایک شعر جو نجانے کس کے بارے میں ہے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ یہ ان کے اپنے بارے میں ہے۔ یہی شعر میں مجید نظامی کی نذر کرتا ہوںکل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میںگم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں