ایوان صدر اور ایمبولنس؟
صدر زرداری کے معاون خصوصی ڈاکٹر قیوم سومرو تقریباً چار سال کے بعد میرے گھر آئے۔ جب وہ قیدی زرداری صاحب کے غیر سرکاری معاون عمومی تھے تو ہر چار مہینے کے بعد میرے گھر آتے تھے۔ میرے گھر کے لوگ بھی ان کے شناسا ہیں۔ حیرت ہے کہ زرداری صاحب کے صدر بننے کے بعد بلکہ ڈاکٹر قیوم سومرو کے صدر کے معاون خصوصی بننے کے بعد گھر والوں نے کبھی انہیں یاد نہیں کیا۔ جس طرح ڈاکٹر قیوم سومرو اپنی ڈاکٹری بھلا بیٹھے ہیں۔ صدر زرداری میں انہیں صرف زر یاد ہے۔ انہیں زرداری صاحب میں آخری صرف (ی) اب بالکل پسند نہیں۔ مگر جب تک وہ صدر زرداری ہیں تو ان کی بہت سی مجبوریاں ہیں۔ انہیں باٹا کے سلیپر بھی اب پسند نہیں کیونکہ انہوں نے بالی (فرانس) کے بوٹ پہنے ہوتے ہیں۔میں نے ان کا استقبال کیا۔ وہ میرے گھر آئے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے زرداری صاحب قیدی ہوں۔ وہ ایوان صدر کے قیدی ہی تو ہیں۔ انہوں نے صرف یہ کیا ہے کہ قیدی اور قائد کے تصور کو گڈمڈ کر دیا ہے بلاشبہ وہ پاکستانی روایتی سیاست میں سب سے کامیاب آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے حریفوں اور حلیفوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرکے انہیں پہلے حیران کیا پھر پریشان کر دیا۔سومرو بھائی نے کہا کہ آج بھی صدر زرداری آپ کو یاد کرتے ہیں۔ اجمل نیازی ہمارے برے دنوں کا ساتھی ہے۔ زرداری صاحب کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میں اس کے لئے کالم لکھتا۔ میں نے اتنا کہا تھا کہ مقدموں کا فیصلہ کرو ورنہ اسے جیل سے باہر نکالو۔ این آر او بھی فیصلہ نہ کرنے کی پاداش میں آیا ہے۔ اب بھی فیصلہ این آر او کے خلاف ہے۔ زرداری صاحب کے خلاف نہیںہے۔ وہ مجھے یاد کرتے ہیں مگر میں انہیں بھلا چکا ہوں۔ مجھے یہ یاد ہے کہ جب اسلام آباد ان کے لئے رہائی کمیٹی نے اجلاس کیا تھا مجھے قیوم سومرو صاحب نے بلایا تھا۔ وہاں بہت لوگوں نے تقریریں کیں۔ نوابزادہ نصراللہ بھی تھے۔ اسی بابائے جمہوریت نے منتخب وزیراعظم اور زرداری صاحب کے سسر بھٹو صاحب کے خلاف اصغر خان کے ساتھ مل کے امریکہ کی امداد اور اشیرباد سے تحریک نظام مصطفیٰ چلائی تھی۔ میں نے بھی تقریر کی تھی۔ مجھے صرف ڈاکٹر بابر اعوان کی تقریر یاد ہے۔ پھر جب مجھے جنرل مشرف کے گورنر پنجاب جنرل خالد محمود نے ملازمت سے نکال دیا تو میری فائل میں آمریت کے خلاف میرے بہت سے کالم تھے۔ کئی تقریروں کی ریکارڈنگ تھی۔ ان میں زرداری صاحب کے لئے کی گئی تقریر بھی تھی۔جب وہ جیل میں تھے تو ایک ملاقات میں مجھے کہا کہ لوگ میرے ساتھ بہت توقعات باندھ رہے ہیں۔ توقع اسی کے ساتھ باندھی جاتی ہے جو ایسے مقام پر ہو کہ کچھ کر سکتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بھی زرداری صاحب کو پتہ تھا کہ وہ کچھ بننے والے ہیں۔ جس طرح انہیں یہ بھی پتہ ہے اور یہ خود انہوں نے کہا ہے کہ مجھے بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا پتہ ہے۔ بھٹو صاحب کے قاتلوں کا پورا پتہ لگانے کے لئے انہوں نے مقدمہ کیا۔ اب وہ مقدمہ کہاں ہے؟ بات کو آگے نہ بڑھنے دینے کے لئے انہوں نے ڈاکٹر بابر اعوان جیسے باصلاحیت کمٹڈ اور وفا والے مضبوط آدمی کو اپنے سے دور کر دیا ہے۔ شہید بی بی کے قاتلوں کو چھپانے کے لئے انہوں نے رحمان ملک کو کبھی وزیر داخلہ اور کبھی مشیر داخلہ بنا دیا۔ وہ بی بی شہید کے چیف سیکورٹی انچارج تھے۔ بے نظیر بھٹو کے قاتل اسی لئے نہیں پکڑے جا رہے کہ ان کا پتہ صدر زرداری اور رحمان ملک کو ہے۔ دہشت گرد بھی نہیں پکڑے جا رہے جبکہ دونوں جانتے ہیں کہ کون دہشت گردی کر رہا ہے اور کون دہشت گردی کرا رہا ہے۔ میں صدر زرداری صاحب کو بتاتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو کا قاتل امریکہ ہے اور دہشت گردی بھی وہی کرا رہا ہے۔ بھٹو صاحب کا قاتل جنرل ضیاءالحق ہے تو جنرل ضیاءالحق کو کس نے قتل کرایا ہے؟ کیا بے نظیر بھٹو نے کرایا تھا؟ مشرقی پاکستان کا قتل کس نے کرایا ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان نہ ہوتا تو بھٹو کبھی سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نہ بن سکتے تھے۔ میں کچھ باتوں کے لئے بھٹو صاحب کا مداح ہوں۔ میں کچھ باتوں کے لئے صدر زرداری کا بھی مداح ہوں مگر وہ کبھی صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے سربراہ نہ بن سکتے تھے اگر ان کی بیوی بے نظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں جسے اب وہ بھی شہید بی بی کہتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ وہ پھر جیل میں آئیں گے میں پھر ان کا ساتھ دوں گا کہ انہیں انصاف دیا جائے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو جیل دے دی جاتی ہے تاکہ انہیں انصاف نہ دیا جا سکے۔ اگر انصاف ہو جاتا تو پاکستان کے ساتھ مسلسل بے انصافی نہ ہوتی۔ اس میں سارے سیاستدان شامل ہیں۔ وہ سیاستدان جو حکمران بنتے رہے ہیں وہ بار بار اسی لئے آتے ہیں کہ بے انصافیاں ان کی مددگار ہیں۔ تحریک انصاف چلانے والے عمران خان سے بھی انصاف کی امید نہیں ہے کہ وہ بھی سیاستدان ہے اور حکمران بننا چاہتا ہے۔ بھٹو بھی تبدیلی لانے کے اعلان کے ساتھ آئے تھے۔ یہ خیالات کی تبدیلی تھی حالات کی تبدیلی نہ تھی۔ یہی حسرت لے کے ہم تو مر چلے کہ تبدیلی کب آئے گی، عام لوگوں کے حالات کب بدلیں گے۔ تبدیلی ہمیشہ اندر سے آتی ہے۔ ہمارے سیاستدان تبدیلی باہر سے لانے کی ناکام کوشش میں ہیں؟صدر زرداری کے جیل میں پھر آنے کی بات ہوئی ہے اور یہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میرے دو ہی ٹھکانے ہیں۔ جیل یا ایوان۔ جیل بھی ہمارے ”خاص“ سیاستدانوں کے لئے ایوان ہی ہے اور ایوان بھی ایوان اقتدار جیسا ہوتا ہے مگر بھٹو کے لئے تو جیل ایوان نہ تھی۔ انہوں نے بھی دو ٹھکانوں کی بات کی تھی تخت یا تختہ۔دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے یا تخت جگہ آزادی کی یا تختہ مقام آزادی کاشہید تو سبھی ہوتے ہیں مگر جو پھانسی چڑھتا ہے مجھے زیادہ محبوب لگتا ہے۔جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلےمیرا خیال ہے کہ جو کوئے یار سے نہیں نکلتا وہ سوئے دار نہیں جا سکتا۔ رومانس بڑا ضروری ہے جو موت و حیات کے سارے قرینوں میں ہے مگر آج صدر زرداری نے کوئے یار بھی ایوان صدر بنا لیا ہے۔ یہی کوئے سیاست بھی ہے۔ نجانے یہ بات صدر زرداری نے کب اور کہاں کہی تھی کہ میں ایوان صدر سے ایمبولنس میں نکلوں گا۔ ایک مضبوط خبر یہ بھی ہے کہ اگلی باری بھی ہماری۔ جیوے صدر زرداری۔ جب یہ ثابت ہو گیا ہے اک زرداری سب پر بھاری تو یہ بھی ثابت ہو جائے گا۔ ڈاکٹر قیوم سومرو کا شکریہ کہ انہیں اتنی دیر بعد دیکھا تو کیا کیا یاد آیا ہے اور ابھی یاد آئے چلا جا رہا ہے۔