ڈاکٹر طاہر القادری ۔۔۔ جی آیا نُوں!
تحریکِ منہاج اُلقرآن کے بانی اور (غیر فعال) سابق پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین‘ علّامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی، پاکستان آمد کے پروگرام میں‘ کچھ تاخیر ہو گئی ہے۔ ستمبر کے اوائل میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ نومبر میں پاکستان تشریف لارہے ہیں‘ لیکن 4 دسمبر کی شب‘ ڈاکٹر صاحب نے کینیڈا سے سیٹلائٹ پر‘ اسلام آباد کے سینئر صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اطلاع دی کہ 23 دسمبر کو اُن کی وطن واپسی ہو گی۔ اِس سے قبل مَیں نے اسلام آباد کی کچھ دیواروں پر چسپاں‘ کچھ پوسٹر بھی دیکھے، جِن کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری‘ 23 دسمبر کو لاہور میں مینارِ پاکستان کے زیرِ سایہ خطاب فرمائیں گے۔
4 دسمبر کو سینئر صحافیوں سے خطاب کے دوران‘ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ ”اب مَیں انتخابی سیاست کا حِصّہ نہیں بنوں گا“۔ اِس لحاظ سے کسی بھی بڑے سیاسی لیڈر یا اُس کی پارٹی کو‘ ڈاکٹر صاحب سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ 2002ءکے عام انتخابات میں، جِن دِنوں طاہر القادری صاحب کو۔ ”قائدِ انقلاب“۔ کہلانے کا شوق تھا‘ اُن کی پاکستان عوامی تحریک نے‘ قومی اور صوبائی نشستوں پر کثیر تعداد میں امیدوار کھڑے کئے تھے‘ لیکن عوام نے محض اس قدر تعاون کِیا کہ صِرف تبرک کے طور پر۔ ”قائدِ انقلاب“۔ کو ہی منتخب کِیا۔ ڈاکٹر صاحب‘ عوامی تحریک کی طرف سے اکیلے قومی اسمبلی کی زینت بنے۔ چاروں طرف۔ ”انقلاب دشمن لوگ“۔ ڈاکٹر صاحب کو گھیرے ہوئے تھے۔ اکیلا تو چنا بھی بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اور ”انقلاب“ لانا بھی تو‘ ”کلّے بندے دا کم نئیں“۔ ڈاکٹر صاحب نے میر عبدالرشید اشک کے اِس شعر پر غور کِیا کہ۔۔۔
انجمن میں‘ ہم نوا‘ کوئی نہیں
جان کھونے کا مزا‘ کوئی نہیں
اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دِیا۔ در اصل اُس دور کے صدر، جنرل پرویز مشرف نے بھی، طاہر اُلقادری صاحب سے زیادتی کی، اگر جنرل صاحب ، ڈاکٹر صاحب کو وزیرِاعظم مقرر کر دیتے تو ،قوم کو ایک ” صالح“ قیادت تو مِل جاتی ، اور ” انقلاب “ بھی آجاتا ، لیکن جنرل صاحب تو اپنے ” انقلاب“ کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ ڈاکٹر صاحب اپنی مرضی سے ،پاکستان چھوڑ کر گئے تھے، لیکن جنرل پرویز مشرف کو خود رخصت ہونا پڑا ۔ جنرل صاحب کی رخصتی سے قبل ، انہیں 21توپوں کی سلامی دی گئی ،لیکن ڈاکٹر صاحب کو سیاست کی شبِ غم گزار کر خود ہی جانا پڑا ۔ افسوس تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ،رخصتی سے قبل ،ایک توپ کی سلامی بھی نہیں دی گئی جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر طاہر القادری میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جنرل صاحب اب وطن واپس آنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب ہیں کہ دھڑلے سے واپس آرہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی واپسی، ٹارزن کی واپسی نہیں ہے۔ اُن کی واپسی‘ اُس جوگی کی واپسی کی طرح بھی نہیں ہے ، جس کے بارے میں ایک لوک گیت میں کہا گیا ہے ۔۔
”چرخے دی گھُوک سُن کے
جوگی‘ اُتّر پہاڑوں آیا“
جوگی ، گاﺅں کی خواتین کے چرخے کی آواز سُن کر، اتنا مسحُور ہوا کہ، اپنا گیان دھیان چھوڑ کر واپس آگیا تھا ، لیکن ڈاکٹر طاہر القادری بیرونِ مُلک اپنی گوناگوں تبلیغی مصروفیات چھوڑ کر‘ محض ”نیک مقصد“ کے لئے وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ۔ ”مَیں انتخابی سیاست کا حِصّہ نہیں بنوں گا‘ لیکن موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ دکھاﺅں گا“۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ دس سال وطن سے دُور رہ کر‘ پاکستان کا موجودہ نظام تبدیل کرنے کے لئے‘ اُن سے کِس شخص‘ ادارے یا قوّت نے درخواست کی ہے؟ یا وہ از خود‘ قوم کے وسیع تر مفاد میں، راہ ِاللہ‘ یہ کارِ خیر انجام دینا چاہتے ہیں؟
شاید ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان کی 101چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں اور مملکت کے چاروںستونوں‘ پارلیمنٹ عدلیہ، ایگزیکٹو اور میڈیا کو موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کا آئینی راستہ تلاش میں مُشکل پیش آرہی ہے۔ اُن کا ارادہ نیک معلوم ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ‘ متعلقہ فریقین کو موجودہ نظام تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ دکھانے کے بعد‘ پھربیرونِ ملک چلے جائیں گے؟ یا نظام تبدیل کرنے کے آئینی راستے پر قافلہءسیاست کی خود قیادت بھی کریں گے؟ اگر واقعی اُن کی قیادت میں نظام تبدیل ہو گیا ، تو وہ قوم سے ہدیے کے طور پر کیا لیں گے ؟ بیرونِ ملک رہ کر انہوں نے ” شیخ الاسلام “ کا لقب تو پا لیا ہے۔ اب اور کیا چاہیے ؟ ” شیخ اُلاسلام “ آپ کی قیادت میں اگر قوم‘ آئینی راستے پر چل پڑی تو وہ اُس ”انقلاب“ کے ثمرات بھی دیکھ لے گی ، جِس کی آپ نے 2002ءکے عام انتخابات کے دوران نوید سُنائی تھی۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ۔” مَیں نے پارلیمنٹ چھوڑی ہے ۔ پاکستان نہیں چھوڑا ۔ “ میری قبر پاکستان میں ہی بنے گی “ ۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ طاہر القادری صاحب کی عُمر دراز کردیں! ۔۔ اُن کی درازی عُمر کے لئے دُعاﺅں کی اشد ضرورت ہے کہ ۔ خود ڈاکٹر صاحب 1993ءمیں فرما چُکے ہیں کہ۔ ” مجھے خواب میں سرکارِ دوعالم نے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپ کی عُمر کے برابر (یعنی) 63 سال ہو گی“۔
طاہر القادری صاحب کی تاریخ پیدائش 19 فروری 1951ء ہے۔ 23 دسمبر 2012ءکو جب وطن واپس آئیں گے تو اُن کی عُمر 61 سال‘ 10 ماہ اور 4 دِن ہو جائے گی۔ یعنی بقول ڈاکٹر صاحب اُن کی عُمر صِرف ایک سال ایک ماہ اور 26 دِن رہ جائے گی۔ اگر سرکارِ دوعالم کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو عُمر میں توسیع کی نئی بشارت دی گئی ہے تو الگ بات ہے اور باعثِ اطمینان بھی، لیکن اگر سرکار دوعالم کی طرف سے نئی بشارت نہیں دی گئی اور ڈاکٹر صاحب کی عُمر 63 سال ہی مقرر ہے تو انہیں موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے متعلقہ اصحاب اور اداروں کو آئینی راستہ دکھانے کا کام مقررہ مُدّت میں پورا کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں۔ ”پاکستان کی جمہوریت فراڈ ہے اور اصلاحات کے بغیر‘ عام انتخابات‘ مُلک کے لئے تباہی کا باعث ہوں گے‘ مُلک کی بقا اور ایٹمی اثاثوں کے لئے بھی خطرہ ہے“۔ یہ ”اصلاحات“ کیا ہیں؟ اُن کی تفصیل‘ ڈاکٹر طاہر القادری 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے زیر سایہ آئینی راستہ دکھاتے ہوئے بیان کریں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری۔ جی آیا نُوں!