محمد شہباز شریف کی محنت رنگ لے آئی
کچھ عرصہ پہلے تک آزاد جموں کشمیر کی پنجاب سے سیٹوں کے نتائج نے ن لیگ کے علاوہ اس کے ووٹرز کو بھی پریشان کر دیا تھا پھر اس کے بعد عمران خان کے لاہور کے جلسہ نے ن لیگ کی قیادت کی آنکھیں کھول دیں تب سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے اور ایک نئی حکمت عملی نے جنم لیا اس حکمت عملی کے اثرات ضمنی الیکشن میں کچھ اس طرح سے نظر آئے ہیں کہ ن لیگ کے مخالف بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ پنجاب اب واقعی ن لیگ کا قلعہ بن چکا ہے ان ضمنی انتخابات کے ٹریلر سے ایک بات تو صاف واضح ہو گئی ہے کہ اب انتخابات مئی 2013ءکی مکمل فلم کے کم از کم پنجاب میں فاتح حمایت کا تعین کرنا آسان ہو گیا ہے۔
اس کامیابی میں یقیناً ن لیگ کی قیادت نے اوپر سے لیکر نیچے تک کام کیا ہے لیکن اگر کسی کے سر پر کامیابی کا سہرا سجایا جا سکتا ہے تو وہ یقیناً محمد شہباز شریف ہے۔ بطور وزیراعلیٰ پنجاب گزشتہ ساڑھے چار سال میں نامکمل ٹیم کے ساتھ جس طرح سے عوام کی خدمت کی ہے اور پورے پنجاب میں بے شمار مسائل کے ہوتے ہوئے بھی تمام وسائل نچھاور کئے ہیں وہ اپنی جگہ ایک روشن مثال ہے۔
شیخ رشید سیاست میں بھلجھڑیاں چھوڑنے کے عادی ہیں دلچسپ گفتگو کا فن جاننے کی وجہ سے انہیں مختلف چینلز چلاتے رہتے ہیں وہ ایک بات پر پروگرام میں کہتے ہیں کہ ووٹرز مئی 2013ءکے انتخابات میں پرچی کسی کیمپ سے بنوائیں گے ناشتے اور کھانے کسی اور کے کھائیں گے لیکن ووٹ اپنی مرضی سے ڈالیں گے کیونکہ الیکٹرونک میڈیا نے اپنے ٹاک شوز سے عام انسان میں بھی زبردست سیاسی شعور پیدا کر دیا ہے اور اب انہیں اپنے برے بھلے کی تمیز ہو چکی ہے یہ بات اس وجہ سے یاد آئی کہ ق لیگ کو قابو میں رکھنے کیلئے منظور وٹو کو پنجاب بھجوایا گیا تاکہ وہ پنجاب میں کوئی ایسی حکمت عملی وضع کریں جو پیپلز پارٹی کے لئے پنجاب میں کامیابیاں لیکر آئے لیکن اب یہ عجیب تضاد ہے کہ پیپلز پارٹی کی پرانی قیادت اور کارکن اور ق لیگ پوری کی پوری دل سے منظور وٹوکا ساتھ دینے سے عاجز ہے کیونکہ دل ہے کہ مانتا نہیں۔ شائد یہی سبب ہے کہ عام ناقدین کے خیال میں جب منظور وٹو پنجاب کی قیادت سے باہر تھے تو موجودہ سے پہلے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں سیٹیں حاصل کر لی تھیں لیکن اب تو صرف مخالفت میں بہت سے جیالوں نے بھی ن لیگ کو ووٹ دیا ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت کارکنوں کو اہمیت دہ نہیں دے رہی جو ان کارکنوں کا حق ہے ائرپورٹ پر آکر جیالوں کے سکیورٹی فورس پر حملوں سے ٹی وی کوریج تو ضروری اچھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے ووٹ بینک نہیں بنتا۔
موجودہ حکومت کی مدت بقول قمر زمان کائرہ 16 مارچ 2013ءتک ہے اور اس کے فوراً بعد نگران حکومت وجود میں آ جائے گی۔ بے شک حزب اقتدار اور حزب اختلاف کسی ایک امیدوار پر فیصلہ نہ کر سکیں لیکن آخری فیصلہ کن کردار تو چیف الیکشن کمیشن کا ہے جس نے فائنل امیدوار کو نگران حکومت کا سربراہ بنا دینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پورے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ اب پنجاب حکومت کے پاس صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں ان چار مہینوں میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے اور ان کی جائز مشکلات کو ختم کرنے کیلئے ایک تیز رفتار پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں تمام وزراءاور خود وزیراعلیٰ بھی ہفتے میں تین تین تن دن کھلی کچہریاں لگائیں اور موقع پر ہی انصاف کے تقاضے پورے کرکے انصاف مہیا کریں سیکرٹریز حضرات اور مختلف اداروں کے سربراہوں کو بھی احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ روزانہ کم از کم چھٹی سے پہلے تین گھنٹے عام شہریوں کے لئے کھول دیں گے اور ان کی شکایات کا فوری ازالہ کریں گے میٹرو روٹ کیلئے حاصل کردہ اراضی کی قیمت فوراً ادا نہ کرنے پر اس کے ذمہ دار کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اس کا پیغام بہت مثبت انداز میں پہنچا ہے لیکن پنجاب کے مصیبت زدہ اور مسائل کے شکار عوام اقلیت میں ہیں اگر حکومت ان کی داد رسی کر دے اور فوری انصاف مہیا کر دے تو پھر ن لیگ نے جو انتخابی حکمت عملی انتخابات مئی 2013ءکے لئے تیار کی ہوئی ہے اس کی کامیابی توقع سے زیادہ ہو گی۔