پہلی مرتبہ تفریح پر بھی توجہ دی گئی ہے
لاہور میں ہر شعبہ روز بروز صرف اس وجہ سے ترقی کر رہا ہے کہ لاہوریوں میں تخلیقی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔ فارسی میں کہتے ہیں ”چیزی تو بہ آر کہ حلاوتی دِگر است“ یعنی نئی بات المعروف تخلیقی بات کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ لاہور کا تھیٹر حکومت اور تھیٹر کے ”کُبے گروپ“ (جو تھیٹر کو گرائمر کے مطابق چلانا چاہتے ہیں) کی مخالفت اور پابندیوں کے باوجود دنیائے تھیٹر میں اپنا الگ تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈیا میں مزاح کی پرورش لاہور تھیٹر کے فنکاروں نے کی جو مختلف مقابلوں میں شریک ہوتے رہے اور وہاں تربیت دیتے رہے کہ قہقہہ اور تھیٹر کی تخلیق کیسے کی جاتی ہے۔ اب یہ پاکستانی تھیٹر کے فنکاروں کا کمال ہے کہ انڈیا کے تمام چینلز مزاحیہ پروگراموں میں جو مقابلے کرا رہے ہیں ان کی بنیاد بھی لاہوری تھیٹر پر ہے بلکہ اب تو بعض انڈین فلموں میں بھی ہمارے تھیٹر کی جگتیں سنائی دیتی ہیں۔
لاہوری تھیٹر کے ایک سین میں ایک کردار دوسرے کردار کی پٹائی کر رہا تھا، دوسرا مار کھاتے ہوئے پوچھنے لگا کہ تم مجھے کیوں مار رہے ہو؟ میرا قصور تو بتاﺅ؟ دوسرا کردار مارنے کا عمل جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے ”تم نے مجھے گالیاں نکالی ہیں“ لیکن میں نے تو کوئی گالی نہیں نکالی ہے۔ ”تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے مجھے دل میں گالیاں دی ہیں“۔ پہلا کردار قسم کھا کر کہتا ہے کہ ”نہیں میں نے دل میں بھی گالیاں نہیں دی ہیں“ اس پر مزید مارتے ہوئے کہتا ہے ”لیکن میں نے تو محسوس کیا ہے“ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت لاہوری تھیٹر کی ہے۔ انیسویں صدی کے ایک فرسودہ قانون کی وجہ سے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو تھیٹر کے معاملات میں مداخلت کا قانونی حق حاصل ہے۔ بے شمار آرٹس کونسلیں، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس،لاہور آرٹس کونسل اور پنجاب آرٹس کونسل وغیرہ لیکن کسی نے بھی انیسویں صدی کے قانون کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے مانیٹرنگ کرنے والوں کو محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ہر اداکارہ اور مشہور اداکار فحاشی میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال کی بہتری کا امکان صرف اس لئے نظر آیا ہے کہ گزشتہ دنوں صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ طلبہ اور نوجوانوں کو فلموں میں (یعنی دیکھنے کی حد تک) ٹکٹ میں رعایت ملے گی۔
لاہور کی باصلاحیت یوتھ یعنی نوجوانوں نے گزشتہ دنوں ثابت کر دیا ہے کہ ان کے اندر کتنی صلاحیتیں ہیں لیکن ان کی حوصلہ افزائی کا فقدان ہے۔ محمد آصف نے امیچور چیمپئن شپ جیت کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور ایسے ہی سینکڑوں آصف صرف مواقعوں کی تلاش میں ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو کھیلوں کے میدان بھی ایک ایک کرکے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی ہال کے عقب میں دو گراﺅنڈیں تھیں جو قلعہ گوجر سنگھ، میکلوڈ روڈ، بیڈن روڈ، گوالمنڈی، مزنگ اور آس پاس کے بے شمار نوجوانوں کے استعمال میں تھیں لیکن سابقہ صوبائی حکومت نے بے شمار زمینیں خالی ہونے کے باوجود ایک پر ایم پی اے ہاسٹل اور دوسری پر پنجاب اسمبلی کی نقل تیار کر دی جس پر اربوں روپیہ لگ چکا ہے اور اس کا استعمال بھی فی الحال تو سمجھ سے باہر ہے لیکن نوجوانوں سے تو ان کی تفریح گاہ چھین لی گئی۔
دنیا بھر میں موٹر سائیکل سواری سپورٹس کے اندر شامل ہے لیکن لاہور کی یوتھ کے لئے یہ ایک جرم ہے اور موٹر سائیکل سپورٹس سے دلچسپی رکھنے والوں کو جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ حیرت ہے پنجاب سپورٹس بورڈ سمیت بہت سے ادارے آسانی کے ساتھ نوجوانوں کی پسندیدہ موٹر سائیکل سپورٹس کے لئے عالمی معیار کے ٹریکس بنا سکتے ہیں لیکن کسی نے بھی اس طرف توجہ دینی پسند نہیں کی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے بھی آج تک نوجوانوں کی تفریح اور سپورٹس کے فروغ کے لئے کبھی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب حکومت سپورٹس کے شعبہ میں بھی کارنامے انجام دے سکتی ہے، ٹریلر تو وہ پچھلے دنوں یوتھ فیسٹیول میں پیش کر چکی ہے اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اس ایونٹ کو کور کرکے اسے عالمی ایونٹ بنا دیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ عام نوجوانوں کو تمام اولمپک کھیلوں کے لئے بھی تیار کیا جائے۔